حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں ہمیشہ یہ بحث جاری رہتی ہے کہ آزادی اظہار کی حد کیا ہے۔ کیا سب کچھ کہنا آزادی اظہار ہے یا الفاظ کے چنائو میں احتیاط رکھنا؟
مذہب و عقائد، سیاست اور شخصیات پر گفتگو کرتے ہوئے ہم احتیاط کرتے ہیں ناالفاظ کے چنائو کا خیال رکھتے ہیں۔زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ناپسندیدگی کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دیتے ہیں
حالانکہ ناپسندیدگی اور اختلاف میں فرق ہے ناپسندیدگی انکار سے جنم لیتی ہے اور اختلاف دلیل سے عبارت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے دیسی ملحدین مذاہب کے بارے میں آزاد خیالی کے دعویدار ہیں مگر مذہب و عقائد پر بات کرتے ہوئے وہ آزاد خیالی کی بجائے عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ مذہبی عقیدتوں سے گندھی تاریخ کا انکار کرتے ہوئے بھی اسی تاریخ پر سوال اٹھاتے ہیں۔ بھلے مانسو جس چیز سے انکار ہوجائے اس پر مکالمہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے۔ مکالمہ تو تبھی اٹھے گا جب وجود تسلیم کیا جائے گا۔
چلیں خیر اس بوجھل بوجھل گفتگو سے باہر نکل کر سیدھے سبھائو باتیں کرتے ہیں۔ بدھ کی صبح سے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر معروف نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر انچیف محسن بیگ کی گرفتاری چھائی ہوئی ہے۔
گرفتاری کے لئے اہتمام کے ساتھ جانے والی ایف آئی اے کی ٹیم فوٹوگرافری اور ویڈیو ریکارڈنگ کے لئے عملہ بھی ہمراہ لے کر گئی یہی وجہ ہے کہ کچھ تصاویر اور دو ویڈیوز کو یکطرفہ کہا جارہا ہے۔ گھر کا دروازہ کھلوانے میں ناکام رہنے پر سادہ پوش اہلکاروں کی جانب سے دیواریں پھلانگنے کے مناظر دستیاب نہیں یا انہیں غیرضروری سمجھ کر ریکارڈ نہیں کیا گیا؟
اب اگر ایف آئی اے کی ایف آئی آر کی بنیاد پر مقدمہ چلا تو پھر بہت دھول اڑے گی دھول اس لئے اڑے گی کہ کتاب کے مندرجات زیر بحث آئیں گے۔
محسن جمیل بیگ شہر اقتدار کی معروف شخصیات میں سے ہیں۔ اطلاعات کی دنیا میں موثر حیثیت رکھنے کے ساتھ تعلقات کا وسیع دائرہ ان کی شہرت ہے۔ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری، شہباز شریف، جہانگیر ترین اور وزیراعظم عمران خان کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں یہاں سے اندازہ لگالیجئے کہ ان کی رسائی کہاں تک ہے۔
ان کی عمومی شہرت کا حصہ یہ بات بھی ہے کہ وہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بھی منظور نظر ہیں۔ ماضی میں ان کے کہنے پر وہ "خدمات” بھی سرانجام دیتے رہے۔ ماضی ہی کیوں ان کے اُن سے تعلقات اب بھی خوشگوار ہیں۔
دو ہزار دو کے ا نتخابات سے قبل جنرل پرویز مشرف لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کی سالانہ تقریب میں جب یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان ہمارے اگلے وزیراعظم ہوسکتے ہیں تو محسن بیگ کا خیال تھا کہ
"جنرل غلط دائو کھیل رہے ہیں۔ سماجی خدمات اور کھیل کی دنیائیں سیاست کے میدان سے مختلف ہیں کوئی لاکھ انکار کرے پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ سیاسی حقیقتیں ہیں پھر مسلم لیگ ہم خیال (جو بعد میں مسلم لیگ ق بنی کہلائی اور کہلارہی ہے) کے الیکٹیبل بھی موجود ہیں”
انتخابی عمل سے قبل ہی مشرف اور عمران خان میں دوریاں پیدا ہوگئیں ان دوریوں کی وجوہات خود جنرل مشرف ایک سے زائد بار بتاچکے۔
اس الیکشن کے بعد عمران خان پرویز مشرف کے ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ محسن جمیل بیگ ان دنوں پرویز مشرف کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
2008ء میں پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی تو کچھ عرصہ بعد وہ صدر زرداری کے ’’محبوں‘‘ میں شمار ہونے لگے ان برسوں میں وہ ایک ہی وقت میں آصف زرداری اور شہباز شریف کو "محبوب” رہے۔
2011ء میں جب تحریک انصاف کا نیا مروجہ سیاسی جنم ہوا تو محسن جمیل بیگ عمران خان کو پیارے ہوگئے۔ 2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف کی اشتہاری و میڈیا مہم بھرپور انداز میں چلوائی۔
پچھلے چند برسوں کے دوران وہ عمران خان کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کرتے رہے۔
عمران خان سے اپنے اختلافات کی ایک وجہ وہ بتاتے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان دو میڈیا ہائوسز کے مالکان سمیت چند نامور صحافیوں کو جیل میں ڈلوانا چاہتے تھے۔ میں نے انہیں منع کیا کہ ضروری نہیں کہ ذرائع ابلاغ سوفیصد کسی جماعت اور حکومت کا حامی ہو۔
کچھ ادارے (میڈیا کے) اور صحافی اگر آپ کی مخالفت کرتے ہیں تو کچھ حامی بھی ہیں آپ کے مخالفوں کو ہم بھرپور جواب دیتے ہیں اس لئے گرفتاریوں اور مقدمات سے اجنتاب ضروری ہے۔
ان کے بقول جس نشست میں یہ باتیں ہوئیں عمران نے چند افراد کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جو مجھے اچھے نہیں لگے اور میں ان سے دور ہوگیا۔
وزیراعظم ہائوس کے ذرائع کہتے ہیں کہ وہ اپنی دوستی کا صلہ نہ ملنے پر ناراض ہوئے۔ کچھ ٹھیکے دلوانے کے لئے انہوں نے کوشش کی ناکامی پر ناراض ہوگئے۔ میرا خیال یہی ہے کہ دوریوں کے حوالے سے دونوں جانب سے جو وجوہات بیان کی جارہی ہیں وہ سوفیصد درست نہیں۔
بگاڑ کی چند وجوہات میں سے یہ ایک تو ہوسکتی ہے مگر محض یہی ایک وجہ تعلقات کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتی۔
اس رائے کی وجہ بڑی صاف ہے جو لوگ محسن جمیل بیگ کو پچھلی دو اڑھائی دہائیوں سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ محسن بھی دوسرے انویسٹروں کی طرح نفع نقصان دیکھ کر قدم اٹھاتا اور پلٹتا ہے۔ تمہید طویل ہوگئی بہرطور پچھلے سال بھر سے محسن بیگ اور عمران خان میں پرجوش مراسم نہیں رہے۔
اس عرصہ میں انہوں نے بعض ٹی وی پروگراموں میں حکومت کی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وفاقی وزارت اطلاعات کے ذرائع نے اپنے تئیں کوشش کی کہ انہیں ٹی وی پروگراموں میں نہ بلایا جائے۔ کامیابی اور ناکامی کا تناسب ففٹی ففٹی سمجھ لیجئے۔ جس ٹی وی پروگرام کی وجہ سے حالیہ تنازع پیدا ہوا اور اب نوبت گرفتاری تک آگئی اس میں بھی محسن بیگ نے ریحام خان کی کتاب کا حوالہ دیا۔
یہاں ساعت بھر کےلئے رکئے۔ میں پھر عرض کردوں کہ لندن میں اس کتاب کی اشاعت کے بعد یہاں خاصے ہنگامے ہوئے تھے ، قومی اسمبلی کی سابق رکن بیگم نسیم چودھری کے صاحبزادے حمزہ علی عباسی نے جو اُن دنوں اینکری فرماتے تھے، ریحام خان کے بڑے لتے لئے اور مقدمہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا
تحریک انصاف کا خیال بلکہ دعویٰ یہی ہے کہ یہ کتاب جو ریحام خان کے نام سے شائع ہوئی (ن) لیگ نے لکھوائی اور اس کے لئے سرمایہ کاری شہباز شریف نے کی۔ "کتاب لکھی جارہی ہے اور اشاعت ہونے والی ہے”۔ ان دونوں مواقع پر (ن) لیگ کے حامی کچھ لکھاریوں کے نام بھی لئے جاتے رہے کہ یہ کتاب انہوں نے لکھی ہے۔ کتاب لندن سے شائع ہوئی۔ اس پر کسی نے لندن یا پاکستان میں ریحام خان کے خلاف مقدمہ وغیرہ نہیں کیا۔
اس کتاب کے مندرجات کو لے کر سوشل میڈیا پر بہت بٙھد اڑائی جاتی ہے۔
ٹی وی پروگرام میں اس کے ذکر کی ضرورت کیا تھی؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ محسن جمیل بیگ وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی کی نگرانی میں اپنے خلاف چلائی جانے والی مہم پر شدید غصے میں تھے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم وزیراعظم عمران خان کے ایما پر چلائی جارہی ہے۔
اسی سوچ اور غصے میں انہوں نے پلٹ کر جوابی وار کیا جو بظاہر الٹا پڑگیا۔ ایک اخبار نویس کی حیثیت سے مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ محسن جمیل بیگ کو ٹی وی گفتگو میں ریحام خان کی کتاب کا حوالہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ اسی طرح میرے خیال میں کتاب کا حوالہ دینے پر مقدمہ درج کروانے والے وفاقی وزیر مراد سعید سے بھی غلطی ہوگئی۔ وہ یہ کہ انہوں نے کتاب اور مصنفہ بارے اپنی درخواست میں خاموشی اختیار کی۔
اب اگر ایف آئی اے کی ایف آئی آر کی بنیاد پر مقدمہ چلا تو پھر بہت دھول اڑے گی دھول اس لئے اڑے گی کہ کتاب کے مندرجات زیر بحث آئیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ محسن جمیل بیگ کی گرفتاری درست عمل ہے نہ اپنایا گیا طریقہ کار درست ہے۔ تحفظات بھی ہیں اور سوالات بھی۔
جن دو تصاویر اور ایک ویڈیو کے ذریعے ایف آئی اے اور تحریک انصاف کے حامی انہیں غنڈہ ثابت کررہے ہیں وہ صرف یہ بتادیں کہ اگر سادہ پوش ان کے گھر کی دیواریں پھلانگیں تو ان کا ردعمل کیا ہوگا؟
حرفِ آخر یہ ہےکہ ایف آئی آر کے انداج اور گرفتاری میں جلد بازی ان دونوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا اب سبھی کو سامنا کرنا پڑے گا۔ دھول اڑے گی خوب اڑے گی اور بہت سارے لوگوں کا سانس لینا کچھ مشکل ہوجائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر