نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جنوبی پنجاب : معاشی محرومیاں یا سماجی معذوریاں||ڈاکٹر عبدالواحد

یہ افراد اسکول نہیں کھولنے دیتے اس لئے کہ اگر غریب طبقے کے بچے پڑھ لکھ گئے تو ان کی نوکری کون کرے گا۔ پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد آبادی کا چوتھا حصہ ہے۔ چائلڈ لیبر سے معاشرے پر انتہائی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مثلاً ناخواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر عبدالواحد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھیجیت بینرجی اور ان کی اہلیہ نے 2011 میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا
Poor Economics: A Radical Rethinking of the Way to Fight Global Poverty
بعد ازاں اسی کتاب کو 2019 میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ دونوں میاں بیوی نے ایک انسٹیٹیوٹ جس کا نام تھا عبداللطیف جمیل پاورٹی ایکشن لیب (J۔ PAL) کا قیام بھی 2003 میں عمل میں لایا۔ نوبل انعام یافتہ اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے انہوں نے بھارت مراکش کینیا انڈونیشیاء اور دوسرے ترقی پذیر ممالک سے مسلسل آٹھ سال فیلڈ میں جاکر معلومات حاصل کیں۔ اس سے قبل غربت کے بارے میں جو لوگوں کی رائے اور سمجھ تھی اس کو انہوں نے مختلف انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔

اس کتاب میں انہوں نے کچھ سوالات اٹھائے مثال کے طور پے جنہیں ہم غریب کہتے ہیں وہ کیا خریدتے ہیں وہ اپنے بچوں کی تعلیم، ان کی اپنی صحت، یا اپنے بچوں یا والدین کے بارے میں کیا کرتے ہیں ؛ وہ کتنے بچے پیدا کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ غریبوں کی زندگی اور انتخاب ہمیں عالمی غربت سے لڑنے کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے، کہ غریب اکثر صحت کا دیکھ بھال اس وقت کیوں کرتے ہیں جب وہ انہیں فائدہ دینے سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ غریبوں کے بچے سال بہ سال اسکول کیوں جاتے ہیں اور کچھ نہیں سیکھتے؟ غریب ہیلتھ انشورنس کیوں نہیں چاہتے؟

اگر اس بات کو مختصر انداز میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ غربت لوگوں کی معاشی بدحالی اور خرابی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی سماجی اقدار اور سوچ کی وجہ سے ہے۔ ان کے بقول لوگ غریب نہیں بلکہ غریب بنے ہوئے ہیں یا بنائے گئے ہیں۔ یہی کچھ صورتحال جنوبی پنجاب کی ہے گزشتہ کچھ دن پہلے UNDP نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں جنوبی پنجاب کو باقی ماندہ پنجاب سے غریب ظاہر کیا گیا۔ اگرچہ حکومت دعوی کرتی ہے کہ جنوبی پنجاب میں بلین ڈالر بھی خرچ کیے جا رہے ہیں مگر غربت ویسے کی ویسے ہی کیوں ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہاں کے لوگوں کو سماجی سیاسی اور اقتصادی بنیادوں پر آزادی میسر نہیں۔ کچھ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ امداد ٹوٹی ہوئی ٹانگ پر پلاسٹر کی طرح موثر ہے : اس سے زخمی شخص کو یہ تسلی بخش احساس مل سکتا ہے کہ کوئی اس کی دیکھ بھال کر رہا ہے، تاہم یہ اسے دوبارہ چلنے پر مجبور نہیں کرے گا۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ امداد لوگوں کو اپنے حل تلاش کرنے سے روکے گی،

اگر جنوبی پنجاب کی غربت کی بنیادی وجوہات پر روشنی ڈالیں تو سب سے پہلی وجہ زمینوں کی نا منصفانہ تقسیم ہے جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام اپنے تمام ظلم و ستم کے ساتھ قائم ہے۔ بہت سے جاگیردار گھرانے صدیوں سے یہاں اپنا اقتدار قائم کیے ہوئے ہیں۔ ان کا محض سیاسی اثر و رسوخ ہی نہیں ہے بلکہ کئی ایک گھرانوں میں روحانی سلسلوں کی گدی نشینی بھی چلی آ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے کی زیادہ تر جائیداد انہیں خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے۔

 

ایک رپورٹ کے مطابق 80 فیصد بچے اور نوجوان جنوبی پنجاب میں غربت کا شکار ہیں۔ اس اعتبار سے چائلڈ لیبر بڑھ رہی ہے۔ چائلڈ لیبر کا بہت بڑا سبب ہے عام طور پر ایسے والدین جو بچوں کی تعلیم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تو چائلڈ لیبر جنم لیتی ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ گمبھیر ہو جاتی ہے جب معصوم بچوں سے صرف یہی جاگیردار اور گدی نشین اور ملز مالکان یا کاروباری حضرات زبردستی مشقت ہی نہیں لیتے بلکہ ان کا دیگر کئی طریقوں سے بری طرح استحصال بھی کرتے ہیں۔ بچوں کو ملازمت کے دوران چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بعض اوقات تو بلا جواز سخت جسمانی سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ بچوں سے کھلے عام جبری مشقت لی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظالم جاگیردار اور بعض سرمایہ دار اور سود خور افراد ان بچوں کو زبردستی پر تشدد مشقت پر لگائے ہوئے ہیں۔

یہ افراد اسکول نہیں کھولنے دیتے اس لئے کہ اگر غریب طبقے کے بچے پڑھ لکھ گئے تو ان کی نوکری کون کرے گا۔ پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد آبادی کا چوتھا حصہ ہے۔ چائلڈ لیبر سے معاشرے پر انتہائی اثرات مرتب ہو رہے ہیں مثلاً ناخواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی طرح معاشی معاشرتی استحصال بھی ہوتا ہے بچوں کو آدھی تنخواہ دی جاتی ہے اور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ان سے کام بھی کروا لیا جاتا ہے اور کچھ دیے بغیر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور بعض اوقات ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور معاشرہ انہیں عجیب و غریب نظروں سے بھی دیکھتا ہے۔ یوں ذہنی اور سماجی اقدار سے بیمار معاشرے کی تخلیق ہوتی ہے۔

غریب آدمی کے پاس اس کے علاوہ اپنے بچے کو تعلیم و تربیت کے لئے مدرسہ ہی میسر آتا ہے پنجاب میں پندرہ ہزار رجسٹرڈ مدارس میں سے دس ہزار سے زائد مدارس جنوبی پنجاب میں کام کر رہے ہیں۔ ضیاءالحق نے جنوبی پنجاب میں دینی مدارس کھولنے کی حوصلہ افزائی کی جو اس علاقے کے روایتی مدرسوں ( جو بالعموم خانقاہوں سے منسلک تھے ) کے برعکس سلفی عقائد کے تھے۔ بعد کے سالوں میں جنوبی پنجاب کشمیر کی آزادی کے لیے مجاہدین کی بھرتی کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا۔

یہاں کے نوجوانوں کے لیے مذہبی مدرسوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے، جہاں انہیں ناصرف مذہبی تعلیم بلکہ تین وقت کا کھانا اور کپڑا تک فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک طرف جاگیردار تھے تو دوسری طرف مذہبی پروہتوں کا اور گدی نشینوں کا فروغ طبقہ۔ ان دونوں گروہوں نے اپنے علاقوں پر ایسے کنٹرول قائم کیے ہوئے ہیں کہ ان کے ووٹ کسی صورت ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ ان گھرانوں کے افراد نے ایوان اقتدار میں پہنچنے کے بعد بھی مقامی لوگوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں جنوبی پنجاب کے بہت سے علاقوں میں انسان اور جانور ایک گھاٹ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔

دوسری طرف اگر کچھ زمینیں چھوٹے کسانوں کے پاس موجود بھی ہیں تو چھوٹے کسانوں کا مسلسل استحصال ہوتا رہتا ہے مثال کے طور پر شوگر ملز مالکان کا تعلق یا تو انہیں جاگیردار خاندانوں سے ہے یا پھر گدی نشین خاندانوں سے مثال کے طور پر آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، چوہدری شجاعت حسین، ہمایوں اختر ان کے بھائی، ہارون اختر اور ان کے رشتہ دار شمیم، خسرو بختیار، جہانگیر ترین، نصراللہ دریشک وغیرہ وغیرہ شوگر ملز مالکان ہیں ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب کی 9 بڑی شوگر ملز نے کسانوں کے لگ بھگ 10 ارب روپے دبا لیے اور جن کے خلاف سیاسی اثر و رسوخ کے باعث موثر کارروائی نہیں ہو سکی۔

ایک طرف کوئی ذرائع معاش میسر نہیں اور دوسری طرف پیداوار کی جائز اور مناسب قیمت نہیں دی جاتی۔ اور کسان اسی غربت کی زندگی میں دھکیلے رہتے ہیں وہ غریب نہیں انہیں غریبی جبری طور پر نوازی جاتی ہے جس میں ریاست صرف اور صرف تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ ریاست انہیں امداد نہیں بلکہ ان کا بنیادی حق تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ اور ان کی اجرتوں کا جائز معاوضہ دلا کر ان کو غربت کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالواحد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author