رضوان ظفر گورمانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دن سے روف کلاسرہ صاحب ٹوئٹر فیس بک اور وی لاگز میں ڈی پی او لیہ ندا چٹھہ کو الزمات کی زد میں رکھے ہوئے ہیں۔کچھ بھی کہنے سے قبل بتانا چاہوں گا کہ اک وقت تھا جب راقم اسیران روف کلاسرہ میں شامل تھا۔ انکے تمام کالم حفظ کیا کرتا تھا۔ انکو آئیڈیلائز کرتا تھا۔ یوں سمجھیں مجھے کلاسرہ صاحب کی صحافت سے محبت تھی۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری کلاسرہ صاحب سے کوئی مخاصمت یا مخالفت نہیں۔
کلاسرہ صاحب نے یکے بعد دیگرے 2کالم بھی داغ دئیے جس میں انہوں نے ندا چٹھہ کے سینئرز بیچ میٹس کو شرم دلانے کی کوشش کی اور اپنے کالم میں یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی کہ ایس ایس پی افسران احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور ڈی ایم جی افسران سے جلتے ہیں۔
کلاسرہ صاحب کے بقول معاملہ کچھ یوں ہے کہ پرانی دشمنی کی بنا پہ کسی بااثر شخص نے بکریاں پالنے والے شریف خاندان کو چور بنا ڈالا رات کو دو بجے چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا۔ سوئی ہوئی خواتین کو جگا کر زدوکوب کیا اور بندے اور بکریاں اٹھا کر لے گئی اور کلاسرہ صاحب کے معاملہ اٹھانے پہ پانچ مزید ناجائز پرچے دے دئیے۔جب بی ایس کی طالبہ ڈی پی او صاحبہ کے سامنے پیش ہوئی تھیں تو ڈی پی او نے بداخلاقی کی۔ڈی پی او صاحبہ کا بد اخلاقی پہ مبنی اک مبینہ جملہ (تمہیں پولیس اٹھا کر لے تو نہیں گئی نہ) کلاسرہ صاحب کے کالم میں اٹھائے گئے طوفان بدتمیزی سے کہیں درجہ بے ضرر سا لگتا ہے۔
معاملہ میرے ڈویژن کا ہے۔ میرے شہر سے چند کلومیٹر دور کا ہے تو ارد گرد سے سن گن لی اور پولیس نے بھی پریس ریلیز جاری کی۔پولیس کے مطابق ڈی پی او صاحبہ اک غیر روایتی افسر ہیں۔ انکے دروازے سائلین کے لئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اسکی گواہی ضلع بھر کی عوام دیتی ہے اور ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی۔بی ایس کی طالبہ سے کئی دن پہلے رفیق نامی اک شخص پیش ہوا کہ پولیس ان کو چوری شدہ بکریاں لینے کے جرم میں ناجائز پھنسا رہی ہے۔رفیق کی شکایت پہ ڈی پی او صاحبہ نے دو افسران کو گراونڈ زیرو پہ بھیجا۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ پولیس نے دو چوروں کو گرفتار کیا جن کے نام منور اور فہیم ہیں ۔انہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ بہرام خان کے بیٹے ان کے گروہ میں شامل ہیں اور وہ مل کر بکریاں چوری کرتے ہیں ۔ہم ٹاٹ کا اک ٹکڑا لے کر بکری کے منہ پہ باندھتے ہیں اور لے جاتے ہیں ۔چوری شدہ بکریاں بیچنا بہرام کے بیٹوں کا کام ہے ہمیں ہمارا حصہ مل جاتا ہے۔بہرام خود اک ریکارڈ یافتہ چور تھا اب بزرگ ہو چکا ہے اب اس کے بیٹے مبینہ طور پہ یہی کام کرتے ہیں۔بہرام کے بیٹے رفیق حفیظ اور بہرام (ان تینوں کے بکریوں کے باڑے ہیں جس میں سینکڑوں بکریاں موجود ہیں) کے پاس یہ بکریاں بیچتے ہیں۔
کلاسرہ صاحب کا الزام ہے پولیس لالچ کر رہی تھی جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ سینکڑوں بکریوں میں سے وہ صرف تیس مشکوک بکریاں لائے اور علاقہ میں باقاعدہ منادی کرائی۔جن کی بکریاں چوری ہوئی تھیں ان کو شناخت کے لیے بلایا اور پنچایت میں پانچ مدعیان نے 17 بکریاں شناخت کر لیں ان کے پاس گواہ تھے جو حلفاً کہنے کو تیار تھے کہ یہ بکریاں ان کی ہے جبکہ باڑے والے حضرات کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔پولیس نے ان سترہ بکریوں کے علاوہ باقی بکریاں واپس کر دیں۔جہاں تک چادر چار دیواری کے تقدس اور خواتین کو جگا کر زدوکوب کرنے کی بات ہے تو پولیس کے مطابق جب باڑے ہی گھر متصل نہیں بلکہ الگ ہیں تو پولیس گھر کیوں گھسے گی۔خواتین خود باہر آئیں یہ جرائم پیشہ افراد کا وطیرہ ہوتا ہے کہ خواتین کو آگے کر دیتے ہیں ادھر کوٹ ادو میں جھگی میں رہنے والے منشیات فروش یہی کرتے ہیں تا کہ پولیس پہ دباو بنا سکیں۔
گھر میں گھسے ہوتے تو ویڈیوز بنا لیتے تصاویر بنا لیتے جو میڈیا پہ بیان دے سکتے ہیں ڈی پی او تک کالم نگار تک رسائی رکھتے ہیں ان کے لیے پہلا کام یہی ہونا چاہیے تھا۔
یہاں آتے ہیں روف کلاسرہ صاحب جو چاہتے تھے کہ رفیق حفیظ اور بہرام کے خلاف پولیس کوئی کاروائی نہ کرے۔اس سے پہلے بھی کہنے والے کہتے ہیں کہ لیہ میں ڈی سی او اور ڈی پی او ممبران اسمبلی کی مانے یا نہ مانے کلاسرہ صاحب کی ضرور مانتا ہے جبکہ ندا چٹھہ صاحبہ ٹرانسفر پوسٹنگ کو ملازمت کا حصہ سمجھتی ہیں انہوں نے میرٹ کرنے کا کہہ دیا جسے کلاسرہ صاحب نے انا کا مسئلہ بنا دیا اور اب وہ کالم پہ کالم داغ رہے ہیں ٹوئیٹ پہ ٹوئیٹ کھڑکا رہے ہیں کہ جی ڈی پی او نے ظلم کر دیا۔باقی 550 کی کاروائی جو 7 فروری کو ہوئی تھی اس کی بنا پہ مدعیان نے ایف آئی آر دی ہے۔ایف آئی آر کوئی فرد جرم نہیں ہے آئے روز ہم جیسے صحافی ہی مطالبہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کرنا پولیس کا فرض ہے اب مدعیان کے کہنے پہ پولیس نے قانونی فرض پورا کیا ہے تو یہ غلط کیسے ہو گیا۔پولیس نے 411 کی ایف آئی آر دی ہے جو کہ بنتی ہے اور پہلی پیشی پہ ضمانت ہو جاتی ہے۔پولیس اگر زیادتی کرتی تو ناجائز مقدمات درج کرتی جبکہ اس کیس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
یقیناً اس تحریر سے ایسا محسوس ہو رہا ہو گا کہ راقم پولیس کا فوکل پرسن یا میڈیا منیجر ہے لیکن یقین جانیں یہی سچ ہے۔
راقم اس قدر شریف انسان ہے کہ سالوں گزر جاتے ہیں راقم تھانے نہیں جاتا۔کئی ایس ایچ اوز آتے ہیں چلے جاتے ہیں راقم کے پاس ان کا نمبر تک نہیں ہوتا موجودہ ایس ایچ او کا نام معلوم ہے نمبر نہیں کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
کلاسرہ صاحب نے ماڈل ٹاون قتل سے لے کر ساہیوال حادثے تک سب کا گنوا کر پولیس کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔پولیس میں کامران احمد قمر کلیم اللہ گاڈی جیسے افسران ہیں جن کی دیانت کی مثالیں دی جاتی ہیں پھر ڈی آئی جی عبدالغفار قیصرانی اور ندیم عباس جیسے افسران ہیں جن سے ذاتی حیثیت میں ملا ہوا ہوں اور ان کے پروفیشنلزم کا معترف ہوں۔محدود وسائیل کے چلتے پولیس کرائم ریڈکشن نہیں کرائم منیجمنٹ کرتی ہے آپ اگر یورپ و امریکہ کی پولیس چاہتے ہیں تو پولیس کی تعداد مراعات سہولیات اور جدت بھی ویسے ہی کرنا پڑے گی۔اور سینئیرز اور بڑے ناموں کی انا بھی بڑی ہوتی ہے ہارون الرشید صاحب کی پولیس افسر کو دی گئی گالیاں آپ کو یاد ہوں گی اور پھر اس سے قبل بھی کلاسرہ صاحب کئی ڈی پی اوز کے خلاف کالم لکھ کر انہیں ” راہ راست ” پہ لا چکے ہیں لیکن اس بار ان کا واسطہ اور طرح کی افسر سے پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی