رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ کچھ دنوں سے ملکی سیاست کے منظرنامے پر (وزیراعظم عمران خان کے خلاف) تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو ہلچل مچی ہے، اس کا ڈراپ سین ہفتہ کے روز پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن کی لاہور میں چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہٰی سے ہونے والی ملاقات میں ہو چکا۔ کیونکہ ملاقات کی جو اندرونی کہانی ذرائع نے بتائی وہ یہ ہے کہ چوہدری برادران نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آصف زرداری جو طے کر کے گئے تھے وہ اس پر قائم ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے صدر آصف زرداری نے لاہور میں چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر ان سے ملاقات کی تھی جبکہ سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی بھی موجود تھے۔ اس ملاقات کے اگلے روز آصف زرداری کی ایم مولانا فضل الرحمٰن سے ٹیلیفون پر بات ہوئی جبکہ اس کے ساتھ ہی مولانا نے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کر کے انہیں صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کی چوہدری برادران سے ملاقات کا ہونا طے پایا، جبکہ (آج) اتوار کو شہباز شریف فالو اپ کے طور پر چوہدری برادران سے ملاقات کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچیں گے۔
خیال رہے کہ شہباز شریف جب چوہدری برادران سے ملاقات کے لئے نکلیں گے تو وہ 22 سال پہلے کی خوشگوار اور ناخوشگوار یادوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد کے جا رہے ہوں گے، 12 اکتوبر 1999 سے پہلے کس نے کیا غلطی کی اور اس کے بعد یا اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، کس نے کس کے ساتھ بے وفائی کی اور کس نے کس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا وہ سب کچھ ان کے ذہن میں کسی فلم کی مانند چل رہا ہو گا۔ کیونکہ 10 دسمبر 2000 کے بعد دونوں سیاسی خاندانوں یا ماضی کے ساتھیوں کے مابین یہ پہلا فزیکل رابطہ ہو گا، آخر کچھ تو تھا کہ دونوں خاندانوں کے مابین سرد مہری کی برف پگھلنے میں 22 سال لگ گئے۔
اہم سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کی (آج) اتوار کو چوہدری برادران سے ہونے والی ملاقات، ملاقاتوں کے حالیہ سلسلے کی فیصلہ کن ملاقات ثابت ہوگی؟ جس کا آغاز ہفتہ پہلے آصف زرداری کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد کی لاہور میں ہی شہباز شریف کی رہائش گاہ پر آمد سے ہوا تھا، یا پھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ مزید کچھ دنوں تک جاری رہے گا۔
یہاں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لئے شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کس حد تک اور کتنی بڑی قربانی دینے کے لئے تیار ہوں گے ، اگر تو وہ آصف علی زرداری کے فارمولے پر عملدرآمد کے لئے تیار ہو جاتے ہیں یعنی اختیارات بانٹنے سے کم نہیں ہوتے، تو تمام معاملات سیدھے ہو جائیں گے وگرنہ روٹی شوٹی کھاؤ مٹی پاؤ، کیونکہ اس وقت جس کو جو میسر ہے وہ اس سے کیوں محروم ہو!
شہباز شریف اور چوہدری برادران کی آج کی ملاقات کی کامیابی کی ایک علامت نواز شریف کی بذریعہ ٹیلی فون شرکت بھی ہو سکتی ہے۔
دروغ بر گردن راوی، شہباز شریف کو بڑے بھائی (میاں نواز شریف) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کا اذن تو مل چکا ہے تاہم اس کے لئے بڑی قربانی یعنی پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے محرومی کا دکھ سہے بغیر ان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہونا کافی مشکل بھی دکھائی دیتا اور نون لیگ کو چھ ماہ کے لئے ہی سہی مگر یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی ہو گا، جبکہ بدلے میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساتھ حمزہ شہباز کے لئے لاہور کی میئرشپ یا پنجاب کی گورنری سمیت اور بھی بہت کچھ مل سکتا ہے۔
اس ساری صورت حال میں لاہور اور آصف زرداری مرکزی اہمیت اختیار کر چکے، کیونکہ ساری ملاقاتیں لاہور میں ہو رہی ہیں اور ان ملاقاتوں کا مرکز و محور آصف زرداری ہیں، مگر اگر عمران خان کو ہٹانا ہے تو قربانی آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو بھی دینا ہوگی کیونکہ قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے محض پانچ ووٹ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے کافی ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اپوزیشن کو کم از کم دس اضافی ووٹ درکار ہوں گے (بشرطیکہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن اپوزیشن کا کوئی رکن مسنگ پرسن نہ بنے)۔
قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح ہے کہ (کاغذ پر) حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 180 بنتی ہے جس میں پی ٹی آئی کے 156، عوامی مسلم لیگ ایک، جمہوری وطن پارٹی ایک، پاکستان مسلم لیگ (ق) 5، ایم کیو ایم پاکستان 7، جی ڈی اے 3، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) 5 اور دو آزاد ارکان (گوادر، بلوچستان سے منتخب ہونے والے محمد اسلم بھوتانی اور میرپور خاص، سندھ سے منتخب ہونے والے علی نواز شاہ) شامل ہیں۔ اس طرح وزیر اعظم عمران خان کو ایوان میں 8 ارکان کی اکثریت حاصل ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت 172 بنتی ہے۔
اس کے مقابلے میں (کاغذ پر) حزب اختلاف کی ارکان کی تعداد 162 بنتی ہے جن میں مسلم لیگ نون کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز 56، متحدہ مجلس عمل 15، عوامی نیشنل پارٹی ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل گروپ) 4 جبکہ دو آزاد ارکان (محسن داوڑ اور علی وزیر) شامل ہیں۔
خیال رہے کہ ایم ایم اے کے 15 ارکان میں مولانا عبدالاکبر چترالی بھی شامل ہیں جبکہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، شاید ان کا ووٹ وزیراعظم عمران خان کے حق میں جائے۔ یہ الگ بات کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ خفیہ نہیں ہوگی بلکہ وہی طریقہ کار ضروری ہے جو وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ہوتا ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ مولانا عبدالاکبر چترالی نااہلی کے خوف سے پارٹی (ایم ایم اے) کے فیصلے کی پابندی کریں۔ اس کے علاوہ آزاد رکن اسمبلی علی وزیر پابند سلاسل ہیں اور ان کا پروڈکشن آرڈر سپیکر کی صوابدید پر منحصر ہو گا۔
اس طرح اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بدلے میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پانچ ووٹ مل بھی جائیں تب بھی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے اپوزیشن کو پانچ سے سات مزید ارکان کی ضرورت ہوگی، وہ یا تو ایم کیو ایم کے سات ووٹ ہوسکتے ہیں یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ اور دو آزاد ارکان (محمد اسلم بھوتانی اور علی نواز شاہ) ہوسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ علی نواز شاہ نے گزشتہ سینیٹ انتخابات میں بھی سید یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا کیونکہ وہ طویل عرصہ پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے جبکہ گزشتہ عام انتخابات سے قبل پی پی پی ٹکٹ نہ ملنے پر انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اور مسلم لیگ فنکشنل کی سپورٹ سے جیت بھی گئے، تاہم انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا، نہ تو وہ جی ڈی اے میں شامل ہوئے اور نہ ہی پی ٹی آئی میں گئے۔ علاوہ ازیں اسلم بھوتانی بھی موجودہ حکومت سے ہر وقت ناراض ہی رہتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے اگر اپوزیشن کو ایم کیو ایم پاکستان کے سات ووٹ لینے ہیں تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو آنے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی میئرشپ کی بڑی قربانی دینا ہوگی۔ خیال رہے کہ چند روز قبل عامر خان کی قیادت میں ایم کیو ایم وفد کی شہباز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور اے این پی کی قیادت سے ملاقاتوں کا مقصد بھی یہی تھا کہ کراچی کی میئرشپ کے لئے راہ ہموار کی جائے (جس میں آصف زرداری اور الطاف حسین رکاوٹ ہیں)۔ ذرائع کے مطابق اگر پیپلز پارٹی آئندہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو کراچی کی میئرشپ دینے کی یقین دہانی کرا دے تو ایم کیو ایم تحریک عدم اعتماد پر ایک مرتبہ پھر قومی مفاد میں فیصلہ کرنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی جماعت اسلامی، مسلم لیگ (نون)، جے یو آئی (ف)، اے این پی اور پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ مل کر کراچی کی میئرشپ لینے کا تہیہ کر چکی ہے اور سعید غنی میئر کے مضبوط امیدوار ہوں گے، جبکہ لندن سے بھی ان کی حمایت کا اشارہ آ چکا ہے۔
اس صورت میں آصف علی زرداری کو وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے سینیٹ کے اندر صادق سنجرانی کو چیئرمین کے طور پر برقرار رکھتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے پانچ ووٹ اور دو آزاد ووٹ حاصل کرنا سستا سودا لگے گا شاید وہ یہی کریں گے۔ البتہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست پر تحریک عدم اعتماد لا کے مولانا عبدالغفور حیدری کو ضرور بٹھایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کو ناکام یا کامیاب بنانے کا سارا دار و مدار وزیراعظم عمران خان کے اوپر ہی ہے۔ آیا وہ اختیارات بانٹنے کے فارمولے پر چلنے کے لئے تیار ہوں گے یا پھر وہی پہلے والی ہٹ دھرمی چلے گی، اور وہ بھی اس صورت میں کہ جب اصل حکمرانوں کا ہاتھ ان کے سر سے ہٹ چکا ہو۔ اگر تو اختیارات بانٹنے کے فارمولے پر چلنا ہے تو پنجاب سے عثمان بزدار کی چھٹی کرنا اور چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنانا ضروری ہو گا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے لئے کم از کم دو مزید وزارتیں پیدا کرنا ہوں گی اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی میئرشپ ایم کیو ایم کے لئے چھوڑنا پڑے گی۔
بصورت دیگر وزیراعظم عمران خان کو آب پارہ اور راولپنڈی کے چکر کاٹنے پڑیں گے، مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ساڑھے تین سال کے بعد بھی ان کی یاترا کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر