وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیاقت علی خان کی شہادت ہماری تاریخ میں وہ نقطہ تھا جہاں غیر سیاسی قوتوں کے اونٹ نے سادھارن عوام کے خیمے میں گردن داخل کر لی۔ خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ سنبھالی اور روہیل کھنڈ ریلوے میں اسسٹنٹ آڈٹ افسر کی ملازمت سے عملی زندگی شروع کرنے والے غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بن بیٹھے۔ یہ ہماری پہلی ہائبرڈ حکومت تھی جو 17 اپریل 1953 کو پنجاب فسادات اور مصنوعی قحط جیسی سازشوں کی چٹان سے ٹکرا کر ختم ہوئی۔ اصل قصہ پاکستان کو سیٹو اور سینٹو میں شامل کر کے مغربی بلاک سے پیوستہ معاشی مفادات بٹورنے کا تھا۔ اپریل 1953 سے اکتوبر 1958 تک بنتی ٹوٹتی حکومتیں ایسا ہائبرڈ بندوبست تھیں جن میں سیاست دان محض نمائشی عہدوں اور مقامی مفادات کی قیمت پر نااہلی اور ناکامی کا بوجھ اٹھانے والے درشنی پہلوان تھے، طاقت کا اصل منبع ایوب خان اور سکندر مرزا تھے۔
محمد علی بوگرا کو گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کرنے کی پاداش میں نکالا گیا۔ حسین شہید سہروردی مقبول عوامی رہنما بن سکتے تھے، انہیں امریکا کو فوجی اڈا دینے پر مصنوعی تنازع کی آڑ میں فارغ خطی دی گئی حالانکہ اس معاہدے کی شرائط سے کہیں بڑی سودے بازی بڈابیر سے جاسوسی طیاروں کی پرواز تھی جو 1960 میں آشکار ہوئی۔ چندریگر کو الیکٹورل کالج میں اصلاحات کی خواہش پر تحریک عدم اعتماد سے توپ دم کیا گیا۔ فیروز خاں نون سکندر مرزا کے صدارتی عزائم میں مزاحمت کا شکار ہوئے۔ 27 اکتوبر 1958 کو سکندر مرزا اور ایوب خان کا ہائبرڈ بندوبست تین ہفتے بھی مکمل نہ کر سکا۔ دو ٹوک آمریت کے تیرہ برس ملک ٹوٹنے پر منتج ہوئے۔ ماندگی کے ایک مختصر اور سازشوں بھرے وقفے کے بعد عوام کا حق جمہور جولائی 77 میں پھر سلب کر لیا گیا۔ 31 دسمبر 1985 کو آٹھ سالہ مارشل لا اٹھایا گیا تو آٹھویں ترمیم کے ذریعے دستور کا پارلیمانی تشخص مسخ کیا جا چکا تھا اور جنرل ضیا کو اس اعلان میں کوئی عار نہیں تھی کہ یہ انتقال اقتدار نہیں، اشتراک اقتدار ہے۔ جنیوا سمجھوتے پر اختلاف اس ہائبرڈ حکومت کو بھی لے ڈوبا۔
نوے کی دہائی میں آرمی چیف، صدر اور وزیر اعظم کی تکون بھی ہائبرڈ بندوبست تھا اور چار بار ناکام ہوا۔ مشرف نے چھان پھٹک کر کے ظفراللہ جمالی کا انتخاب کیا مگر بلوچستان کی گیاہ ضعیف بھی جون 2004 میں ناقابل برداشت ہو گئی۔ 2011 میں بڑے چاﺅ سے تحریک انصاف کی آبیاری شروع ہوئی۔ جولائی 2018 میں اللہ آمین کی صداﺅں میں تبدیلی کے عنوان سے نئے ہائبرڈ بندوبست کی رونمائی ہوئی۔ ٹھیک 30 ماہ بعد ریاست مدینہ (جدید) کی فضاﺅں میں پھر سے تبدیلی کے بادل جمع ہو رہے ہیں۔
سات عشروں پر پھیلی اس کتھا سے کچھ سوال برآمد ہوتے ہیں۔ افراد کی ذاتی فرد عمل سے قطع نظر، ہائبرڈ بندوبست کے خمیر میں آخر ایسی کیا ناگزیر خرابی مضمر ہے کہ کمزور ترین سیاسی فریق اور زور آور ساونت کے تعلق میں بھی استحکام پیدا نہیں ہو پاتا؟ ہائبرڈ بندوبست کی حرکیات میں ایسی کیا کمزوری پنہاں ہے کہ خارجی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے عہدہ براہ ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ گزشتہ 50 برس میں عالمی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ 1955 میں دنیا کی انتہائی غریب آبادی کی شرح 2001 میں نصف رہ گئی۔ حیران کن طور پر غربت کی اس سطح کو مزید آدھا کرنے میں صرف 13 برس صرف ہوئے۔ دوسری طرف ہمارے معاشی اشاریے مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ آبادی اور فوجی استعداد کے سوا شاید ہی کوئی درجہ بندی ایسی ہو جس میں ہم نچلی ترین سطح سے اوپر شمار کیے جائیں۔ ان سوالات کے نصابی جواب نہایت سادہ ہیں لیکن عملی طور پر خاصے پیچیدہ ہیں۔
گزشتہ ہفتے ملنے والی خبروں کی لین ڈوری پر ایک نظر ڈالیے۔ 5 فروری کو اچانک پرچہ لگا کہ آصف علی زرداری مع بلاول بھٹو لاہور میں شہباز شریف کی قیام گاہ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس ملاقات میں مریم نواز بھی موجود تھیں۔ ایک روز کے وقفے کے بعد زرداری صاحب نے چوہدری برادران سے ملاقات کی۔ 8 فروری کو ایم کیو ایم کے وفد نے بھی آستانہ گجرات پر حاضری دی۔ 11 فروری کو پی ڈی ایم نے تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور جہانگیر ترین بھی اس رابطہ مہم میں سرگرم ہیں۔ عدلیہ کے تیور بھی بدلے بدلے ہیں۔ آثار ہیں کہ اواخر فروری تک تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈال دیا جائے گا۔ غالب امکان ہے کہ آئندہ ہفتوں میں اسلام آباد میں موجودہ ہائبرڈ بندوبست کی جگہ اسی روایت کا نیا ایڈیشن نمودار ہو جائے گا۔
شخصی اختلافات کی افواہوں سے قطع نظر اس جوار بھاٹے کے حقیقی اسباب دو ہیں۔ ملکی معیشت کے جملہ اشاریے دگرگوں ہیں اور تاریخ نے ہمیں پھر سے ایک نئی سرد جنگ کے روبرو لا کھڑا کیا ہے۔ عمران حکومت اپنی ساختیاتی نوعیت کے باعث ان گراں بار آزمائشوں سے نمٹ نہیں سکتی۔ سوال مگر یہ ہے کہ عمران حکومت سیاسی اور معاشی ترجیحات کے ایک تسلسل کی کڑی ہے۔ حکومت بدل بھی جائے تو حقیقی مسائل حل ہونے کی امید اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ ہم کچھ زیادہ بنیادی نوعیت کی خود احتسابی کا بیڑا اٹھائیں۔ بابائے قوم نے 25 مارچ 1948 کو چٹاگانگ میں اعلیٰ سول افسروں اور 14 جون 1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں کو سیاست میں دخل اندازی سے منع کیا تھا۔ قائد اعظم نے ہائبرڈ بندوبست نہیں، شفاف جمہوری پاکستان کا درس دیا تھا، قائد کے نصب العین کی طرف لوٹنے ہی میں قوم کی بھلائی ہے۔
دوسرا معاملہ معیشت سے تعلق رکھتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں دنیا بہت بدل گئی ہے۔ آج یہ سوچنا درست نہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔ ہمارے دو ہی حقیقی اثاثے ہیں۔ نوجوان آبادی کی بڑی تعداد اور ممکنہ طور پر پانچویں بڑی تجارتی منڈی۔ نوجوان آبادی کو صرف معیاری تعلیم کے ذریعے انسانی سرمائے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور تجارتی منڈی کے لئے ہمیں فرسودہ داخلی ڈھانچے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسلام آباد میں انتقال اقتدار چاہیے یا فتنہ خوارج (داخلیہ) کا تسلسل؟
۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر