نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خلجان میں مبتلا آبادی||ڈاکٹر مجاہد مرزا

دنیا میں فوج اور عدلیہ کے سربراہ تبدیل ہوتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی مگر خلجان میں مبتلا قوم جب ایک زعیم کے بخیے ادھیڑ رہی ہوتی ہے تو دوسرے زعیم کے بخیے بن رہی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنوان میں جان بوجھ کر نہ تو ملک لکھا گیا نہ قوم کیونکہ مہذب و متمدن ملک ایسے نہیں ہوا کرتے جہاں ہمہ وقت قانونی، آئینی، معاشی، سیاسی اور سماجی خلفشار برپا رہتا ہو۔ قوم تو وہ ہوتی ہے جو من حیث المجموع قوم ہونے پر اس قدر فاخر ہو کہ اس میں شامل مختلف قومیتوں کے لوگوں کو ماسوائے ثقافتی معاملات کے اپنی قومیت تقریبا” فراموش رہتی ہے اس کے متضاد نہیں کہ نہ صرف قومیتوں کو تسلیم نہ کیے جانے کا دکھ ابلتا ہو بلکہ قومیتوں کو اقوام ثابت کرنے کی دھن سوار رہتی ہو۔ یوں پاکستان میں جو کہنے کو ایک ملک بھی ہے اور یہاں بسنے والوں سے متعلق ایک قوم ہونے کا دعوٰی بھی کیا جاتا ہے بس آبادی بستی ہے۔
اور یہ آبادی مسلسل خلجان میں مبتلا رہتی ہے۔ پیر و مرشد کے معاملات کے خلجان میں نہیں کیونکہ پیران و مرشدین تو ان کی روحانی عقیدت کا محور ہیں، اس حد تک کہ اب پڑھے لکھے لوگوں نے بھی جیسے پہلے سر یا سرجی کہنے کی عادت ڈالی ہوئی تھی، ہر اس شخص کو جس کی وہ تعظیم کرتے ہوں یا جس کے کسی عمل سے متاثر ہوں مرشد پکارنے کی روایت اپنا لی ہوئی ہے۔ آبادی کا خلجان سیاست سے متعلق ہے۔
ایک سیاسی تنظیم کے چاہنے والے یا اراکین یا اس تنظیم کے رہنما کو اپنا گرو، سنت، مرشد و مسیحا ماننے والے دوسرے ایسے ہی لوگوں کے بیری رہتے ہیں جو کسی دوسری سیاسی تنظیم کے چاہنے والے ہوتے ہیں، اراکین ہوتے ہیں یا اپنی تنظیم کے رہنما کو ان ہی کی طرح گرو، سنت۔ مرشد و مسیحا ماننے کے عقیدت مند ہوتے ہیں۔ لکھتے ہوئے یہاں ایک غلطی سرزد ہو گئی ہے کہ سیاسی اکٹھ کو جس کے پارٹی ہونے کا گمان ہوتا ہے، تنظیم لکھ دیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں موجود کسی بھی پارٹی میں تنظیم نام کی کوئی شے سرے سے ہوتی ہی نہیں بس عہدے ہوتے ہیں۔ ان عہدوں کے لیے جعلی اور انجنیرڈ نام نہاد انتخاب ہوتا ہے۔ فرد واحد یا چند افراد جو بالعموم رشتے دار ہوتے ہیں، کے گرد یہ ہجوم طواف کرتا رہتا ہے جسے اپنے پارٹی ہونے کا گمان ہوتا ہے اور جسے تکنیکی طور پر تنظیم کہے جانے کی محتاجی ہے۔
جب سے الیکٹرونک میڈیا عام ہوا، ٹیلیویژن کی سکرینوں پر سیاسی مباحث کو ہی میڈیا کا تاج جانا گیا۔ یہ مباحث جو کہلاتے بھی "شو” ہیں درحقیقت ہوتے ہی شو کے مترادف ہیں۔ ان میں جھگڑے بھی ہوتے ہیں، طعن و تشنیع کے تیر بھی چلائے جاتے ہیں۔ ناراحتی اور غصہ بھی دکھایا جاتا ہے اور انتہائی صورت میں غیض اور تھپڑ مکے تک بھی نوبت پہنچی دکھائی دی ہے۔ لوگوں نے ان سیاسی مباحث کو ہی تفریح جانا جس تفریح سے ہی ان کا ژولیدہ سیاسی شعور نیم پختہ ہوا اور ساری آبادی اگر سب سے نہیں تو کسی نہ کسی سیاستدان سے سرگراں ضرور ہے۔ ٹاک شو کا چلن اتنا مقبول ہوا کہ اب ان لوگوں نے جنہیں معروف الیکٹرونک میڈیا پر موقع نہیں مل پاتا اپنے اپنے انٹرنیٹ چینل اور یو ٹیوب چینل بنا کر اپنی آراء دینی شروع کر دی ہیں۔ یوں لگنے لگا ہے جیسے نہ تعلیم مسئلہ ہے، نہ صحت کی برقراری کا مناسب اور دستیاب نظام اگر کوئی مسئلہ ہے تو سیاست اور سیاست دان۔
دنیا میں فوج اور عدلیہ کے سربراہ تبدیل ہوتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی مگر خلجان میں مبتلا قوم جب ایک زعیم کے بخیے ادھیڑ رہی ہوتی ہے تو دوسرے زعیم کے بخیے بن رہی ہوتی ہے۔
خلجان میں مبتلا آبادی کو پریشان کیا ہوا ہے تو دال روٹی کے چکر نے، چھینا جھپٹی کی روش نے، آمدنیوں کی بڑھتی اور گہری ہوتی ہوئی خلیج نے، بہتر معیار زندگی کے یکسرفقدان نے، بچوں کی تعلیم کے لیے وسائل نہ ہونے اور کنبے کی صحت برقرار رکھے جانے سے عاری ہونے کے خوف نے۔ سیاسی خلجان اور عمومی معاشی اور معاشرتی پریشان کن حالات نے قومیتوں کے اس مجموعے کو ذہنی خلفشار میں مبتلا کیا ہوا ہے اور اس خلفشار کے جلد فرو ہونے کی کوئی امید بھی دکھائی نہیں دیتی۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author