گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنجیت سنگھ کا ہاتھیوں سے رستہ بنانا ۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ لکی مروت 1819ء سے 1823ء تک ڈیرہ اسماعیل خان کے حکمران نواب حافظ احمد خان سدوزئ کے ماتحت تھا بعد میں سکھوں کے ماتحت چلا گیا۔
خیر جب رنجیت سنگھ پنجاب سے لکی مروت جا رہا تھا تو لکی مروت کے راستے ایک جھاڑیوں کا گھنا جنگل تھا ۔ان میں سرکنڈے یا کانے ۔برہمی بوٹیاں جو دوائیوں میں کام آتی ہیں اور نوکیلے پتوں والی جھاڑیاں شامل تھیں۔رنجیت سنگھ نے فوج کے چار ہاتھی کندھے سے کندھے ملا کر کھڑے کیے اور انہیں چلانا شروع کیا ۔ہاتھیوں کے چلنے سے صدیوں پرانی جھاڑیاں روندے جانے لگیں اور زمین بوس ہو گئیں اور پیچھے پیچھے فوج کے لیے راستہ بنتا گیا اور فوج آگے بڑھ گئی۔
لالٹین کا جالا ۔۔
جب ہمارے گھروں میں بجلی نہیں تھی گھروں اور کمروں کی تعمیر کے وقت دیواروں میں لالٹین یا دیا رکھنے کا باقاعدہ جالا بنا دیا جاتا تھا۔ اس وقت جرمنی کا بنا لالٹین ہمارے ہاں بہت عمدہ تصور کیا جاتا ۔دیئے تو ٹین کے بھی بنتے اور مٹی کے بھی ۔مٹی کے دیے میں کچا تیل اور کپاس کی وٹ استعمال ہوتی۔البتہ لالٹین کی وٹ بازار سے ملتی۔ خوشی کے موقع پر یا ستائیسویں رمضان کو مسجدوں میں درجنوں مٹی کے دیے جلاۓ جاتے تھے۔
گاۓ ۔وچھی اور بوہلی ۔۔
یونائٹڈ بک سنٹر کے پروپرائٹر محمد لطیف صاحب کے صاحبزادے محسن نے کئی ماہ پہلے فریزیئن نسل گائے کی وَچھی female calf خریدی اور پالنے لگا۔ یہ وچھی لیلے کی طرح محسن کے پیچھے پیچھے پھرتی اور ہم حیران ہوتے کہ یہ کیسی محبت والی وچھی ہے۔ دنوں دنوں میں وچھی گاۓ بن گئی۔گزشتہ روز اس گاۓ نے ایک اور وچھی female calf
کو جنم دیا تو سب گھر والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ہم نے بھی محسن سے ۔۔بوہلی۔۔۔(شروع کے دودھ) کی فرمائش کر ڈالی جس سے کھویا بنائینگے۔آج صبح لطیف صاحب میرے لیے بوہلی لے آے۔ یہ دودھ کیسری مائل بہت thick ہے اور وٹامنز سے بھرپور ہے۔بوہلی ایک ایسا دودھ ہے جس کو گاٶں کے لوگ جانتے ہیں ہو سکتا ہے شھر کے لوگوں کو اس کا پتہ نہ ہو۔
ڈیرہ اسماعیل کی سجری سویر ۔۔
ڈیرہ میں دو تین دن گمل کی ٹھنڈی ہوا چلتی رہی اور اب ذرہ تھم تو گئی ہے لیکن سردی بڑھ گئ۔ آج صبح آٹھ بجے دریاۓ سندھ کے کنارے مڈوے ہوٹل کے پاس سڑک پر دھند کا منظر دیکھیں ۔ سورج کے چہرے کو بھی فاگ نے ماند کر رکھا ہے۔بہر حال صبح سویرے دریا کا کنارہ ایک خوبصورت شکل اختیار کر لیتا ہے۔؎
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ ۔۔
ڈو تاں سارے جنگل آسن ترے تاں سارے دریا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی لُنگیاں ۔۔
لُنگی در اصل پگڑی یا پٹکے کو کہتے ہیں ۔ ماضی میں ڈیرہ اسماعیل خان شھر اور اس کے دیہاتوں میں لُنگی باندھنے کا رواج تھا جو اب کم ہو گیا ہے ۔اس وجہ سے ڈیرہ اسماعیل میں اعلی معیار کی لُنگیاں بنائ جاتی تھیں جو افغانستان میں بھی فروخت ہوتیں اور وہاں کے لوگ پہنتے تھے۔ ہمارے قبائلی علاقے خصوصا“ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیہی علاقوں میں اب بھی یہ لُنگی پہننے کا رواج ہے اور اسے عزت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ضلع میں جب کوئ بڑا شخص آتا ہے تو اس کو عزت دینے کے لیے آج بھی لُنگی پہنائ جاتی ہے کیونکہ یہ ہمارے کلچر میں شامل ہو چکی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ