ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”رحم کا منہ دو گھنٹے سے کھلا تھا۔ درد بھی تیز تھے لیکن بچہ نیچے نہیں آ رہا تھا۔ میں نے اوزار لگانے کا سوچا تاکہ اس کی مدد سے بچہ باہر کو کھینچ لوں۔ ویجائنا میں کٹ بھی دیا کہ زچگی ممکن ہو سکے۔ پھر بھی بچہ تو باہر آ گیا لیکن تھا بہت صحت مند۔ نہ جانے عورتیں حمل میں اتنا کیوں کھاتی ہیں؟ کیا انہیں علم نہیں ہوتا کہ اس پہلوان کو باہر بھی دھکیلنا ہے؟“
وہ غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی۔
”اچھا۔ آخر کو تم نے کھینچ کھانچ کے نکال ہی لیا“ ہم نے مسکرا کر کہا۔
”اف یہ منحوس کھینچ کھانچ۔ جان نکال کر رکھ دیتا ہے ڈاکٹر کی۔ اتنے بڑے اوزار ویجائنا میں ڈالنا کیا آسان کام ہے؟ شکر ہے کیوی ( kiwi) نے کچھ آسانی پیدا کی ہے۔ اچھا آگے تو سنیے“
”بتاؤ، کیا ہوا“
”ہونا کیا تھا، ویجائنا میں لگایا ہوا کٹ تو مناسب تھا لیکن بچے کے صحت مند ہونے کی وجہ سے بڑا ہو کر مقعد ( anal sphincter ) تک جا پہنچا۔ کچھ بچت ہو گئی کہ سب کچھ نہیں کھل گیا لیکن پھر بھی میرا شک تھا کہ کچھ نہ کچھ فائبرز خراب ہوئے ہیں۔ خیر میں لے گئی آپریشن تھیٹر۔“
”اس کی والدہ محترمہ سے چار باتیں بھی سنیں کہ موئی ڈاکٹرنیوں کو فضول آپریشن کر کے ناجائز پیسے کمانے کا شوق ہے۔ ان کے زمانے میں دائی بچہ پیدا کرواتی تھی، مجال ہے جو ایک ٹانکا بھی لگانا پڑے۔ ایسا لگتا ہے ان کی ویجائنا نارمل نہیں تھی بس گزرگاہ تھی کہ بچہ ٹہلتا ہوا آ جاتا تھا اور خراش بھی نہیں آتی تھی“
اس کا غصہ ٹھنڈا ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔
”اچھا ویجائنا کو بعد میں کوسنا، پھر کیا ہوا؟“
”کچھ نہیں، آپریشن تھیٹر لے جا کر ویجائنا کو ٹانکے لگا کر سیا۔ سارا کچھ ٹھیک ٹھاک کر دیا پھر ہدایات بھی دیں گھر جاتے ہوئے کہ احتیاطی تدابیر کون سی ہیں؟ اب ڈیڑھ مہینے بعد چیک اپ کے لئے آئی ہیں تو فرما رہی ہیں کہ گیس پہ کنٹرول ہی نہیں۔ اٹھتے بیٹھتے نکل جاتی ہے، سخت شرمندگی کا سامنا ہے“
”ہاں ایسا ہو تو سکتا ہے، اگر ٹانکوں میں کوئی خرابی ہو جائے تو“
”میں نے پوچھا کہ پاخانے کی خبر سنائیں تو بولیں، قبض بہت رہتی ہے جب سے بچہ پیدا ہوا ہے۔ کافی زور لگا کر ہی پاخانہ خارج ہوتا ہے۔ قبض کشا دواؤں کا پوچھا تو بولیں، وہ تو اماں نے لینے ہی نہیں دیں کہ جب تمہارا پیٹ چلے گا تو بچے کا بھی چل جائے گا۔
خدایا، یہ لڑکیاں حاملہ تو فوراً ہو جاتی ہیں، عقل ایک پیسے کی نہیں ہوتی ”
”تو کیا ان کی عمر رسیدہ ماؤں میں ہوتی ہے؟ وہ بھی تو اتنی ہی انجان ہوتی ہیں اور فتوے / مشورے دینے میں اتنی ہی ماہر“ ہم نے مسکرا کر کہا۔
”یہ بھی ہے لیکن دیکھیے نا ہماری ماؤں کا دور اور تھا، آج کل کی عورت اکیسویں صدی کی عورت ہے اسے چاہیے کہ ہر قدم پہ سائنس کی مدد لے۔ آخر گوگل کس لئے ہے بھئی؟“ اس نے جھنجھلا کر کہا
”اچھا پھر کیا ہوا؟“ ہم نے پوچھا
”ہونا کیا تھا، مقعد کا معائنہ کیا۔ انگلی ڈال کر دیکھا تو اس میں کچھ تھا ہی نہیں۔ ڈھیلا ڈھالا، بالکل بے جان، کہاں سے روکے گا ریح؟ بی چاری کا کچھ نقصان زچگی میں ہو گیا، کچھ قبض نے کیا اور باقی اماں کے مفت مشوروں نے۔ بے چاری بہت پریشان تھی“
”کیا سوچا ہے پھر؟“
”آپ بتائیے، آپ کی زنبیل سے کچھ نہ کچھ تو نکل ہی آئے گا“
اس گفتگو کے ایک کردار کو آپ پہچان ہی چکے ہوں گے۔
زچگی میں ہونے والی بیشتر تکالیف زچہ کو بے حال تو کرتی ہی ہیں لیکن مقعد کو پہنچنے والا نقصان ایک دو دھاری تلوار ہے۔ نہ زچہ کو سمجھ آتا ہے کہ ہوا کیا اور نہ ہی سب ڈاکٹرز اس کو پہنچنے والے نقصان کی پہچان اور پھر سلائی کی اہلیت رکھتے ہیں۔
اگر مقعد ظاہری طور پہ نہ بھی پھٹے تب بھی تحقیق کے مطابق ہر زچگی کے بعد دس میں تین عورتوں کا پیشاب اور دس میں سے ایک عورت کا پاخانے پہ کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔
یہ صرف ایک زچگی میں ہونے والے نقصان کا تخمینہ ہے۔ اس عورت کے پیشاب اور پاخانے کے نظام کے متعلق تصور کر لیجیے جو چار چھ بچے جنتی ہے۔
اور ہاں اس تحقیق میں ہر طبقے اور ہر طرح کی عورت شامل ہے۔ جی۔ ٹھیک سنا آپ نے، ہر طبقے کی عورت۔ فطرت محلوں میں رہنے والی اور جھونپڑی کی مکین کو نہیں پہچانتی۔ بس اتنا فرق ہو سکتا ہے تو دولت سے ہر قسم کا علاج خریدا جا سکتا ہے جبکہ جھونپڑی میں رہنے والی کو علاج چھوڑ، ہر وقت خارج ہونے والے پیشاب اور پاخانے کا کیا انتظام کیا جائے، یہ بھی سمجھ نہیں آتا۔
بہت سے عوامل اس نقصان کا سبب بنتے ہیں، بنیادی وجہ اعصاب کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ زچگی میں بچہ ویجائنا میں دو سے تین گھنٹے گزارتا ہے۔ فٹبال جیسا سر ویجائنا کی دیواروں پہ پریشر ڈالتے ہوئے ان میں موجود اعصاب کے فائبرز کو زخمی کرتا ہے۔ یہی اعصاب پیشاب اور پاخانے کی نالیوں کے دروازوں کو بند رکھنے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ کمزوری کی صورت میں دروازہ آپ ہی آپ کھل جاتا ہے۔ تعجب کیسا، جب کسی دروازے کا چوکیدار ہی زخمی ہو جائے تو دروازے میں نقص پیدا ہونا لازم ہے۔
دوسری بڑی وجہ آگہی کی کمی ہے۔ بڑی بوڑھیاں زچہ کو یہ کہہ کر تسلی دیتی ہیں کہ تسلی رکھو، یہ سب زچگی کا ایک حصہ ہے اور ہر عورت کا یہ نظام کچھ نہ کچھ خراب ہو ہی جاتا ہے۔ وہ نہیں جانتیں کہ انہیں سن کر بے اختیار ہم غالب کو یاد کر لیتے ہیں، ہوئے تم دوست جس کے، اس کا دشمن آسماں کیوں ہو؟
بڑی بوڑھیوں کو تو ایک طرف رکھیے، معاشرے کے دانشور اور اہل ہنر و علم بھی زچگی کو انتہائی گھریلو، غیر اہم اور دائیوں سے آگے کا معاملہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔
اپنے جسم سے بول و براز کا کنٹرول ختم ہونے پر ایک عورت کی زندگی کیسے جہنم میں بدلتی ہے، یہ نہ کوئی سمجھتا ہے اور نہ ہی سمجھنا چاہتا ہے۔
زچگی میں بول و براز کو پہنچنے والے نقصانات اور ان کے حل ہم تک کیسے پہنچے، یہ ایک طویل داستان ہے۔
بے فکر رہیے، ہم آپ کو ضرور سنائیں گے۔
یہ بھی پڑھیے
ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے
یہ بھی پڑھیے:
اسقاط حمل میں عورت پر کیا گزرتی ہے؟۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کاظمی اینڈ سنز عرف سترہ برس کا بیٹا۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر