نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دو سو سال پرانے ڈیرہ اسماعیل خان کے زعفرانی قصے ۔۔||گلزار احمد

۔نونہال خود قدموں پر چل کر اندر جاتا ہے اور مرہم پٹی کرانے ایک کمرے جاتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد اس کا سر کچلا ملتا ہے اور 19 سالہ نونہال موت کی وادی میں چلا جاتا ہے یعنی باپ کھڑاک اور بیٹا نونہال ایک دن رخصت ہو گیے۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب منکیرہ سلطنت پر قبضہ کیا تو وہاں نواب احمد خان حکومت کر رہے تھے۔ نواب کے ساتھ رنجیت سنگھ نے معاھدہ کیا کہ تم منکیرہ چھوڑ دو اور ڈیرہ اسماعیل خان کی سلطنت پر ہمیشہ حکومت کرتے رہو ۔اس معاھدے کو پکا اور مقدس بنانے کے لیے اس نے اپنا شاہی ہاتھ زعفران کے رنگ میں ڈبویا اور ایک کاغذ پر مہر کی طرح ثبت کر کے نواب صاحب کو دے دیا تاکہ سند رہے۔
1836ء کو جب اس کے دل میں ڈیرہ اسماعیل خان فتح کرنے کا خیال آیا تو اسے اپنا وعدہ یاد تھا اس لیے شرم کے مارے خود نہیں آیا مگر چودہ سال کے پوتے نونہال سنگھ کو بھیج کر ڈیرہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ رنجیت سنگھ اگر سیانا ہوتا تو خود ڈیرہ پر قبضہ کرتا اور نواب صاحب کو بتا دیتا وہ زعفرانی مہر والا تو میرا سیاسی بیان تھا اس میں شرم کی کیا بات ہے؟مگر نہ رنجیت سنگھ کو نہ اس کے کسی مشیر کو یہ نادر خیال آیا۔
خیر ۔۔رنجیت سنگھ جون 1839ء کو فوت ہو گیا تو اس کا بیٹا کھڑاک سنگھ تخت پر بیٹھا مگر کھڑاک سنگھ کو زہر دے دی گئ اور وہ سخت بیمار ہو گیا اورچار ماہ بعد اکتوبر 1839 ء میں نونہال سنگھ کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کھڑاک سنگھ کو زہر اس کے بیٹے نے وزیراعظم دھیان سنگھ کے ساتھ ملکر دی تھی تاکہ سلطنت پر وہ بیٹھے۔ اگلے سال 5نومبر کو کھڑاک سنگھ زہر کی بیماری میں انتقال کر جاتا ہے اور نونہال سنگھ باپ کی تدفین سے واپس قلعے آ رہا ہوتا ہے کہ قلعے کے دروازے سے اوپر سے بڑے پتھر گرتے ہیں ۔نونہال کا ایک ساتھی مر جاتا ہے اور یہ معمولی زخمی ہوتا ہے۔نونہال خود قدموں پر چل کر اندر جاتا ہے اور مرہم پٹی کرانے ایک کمرے جاتا ہے ۔تھوڑی دیر بعد اس کا سر کچلا ملتا ہے اور 19 سالہ نونہال موت کی وادی میں چلا جاتا ہے یعنی باپ کھڑاک اور بیٹا نونہال ایک دن رخصت ہو گیے۔ یہ کام بھی دھیان سنگھ وزیراعظم کا لگتا ہے۔ نونہال سنگھ کی ایک ماں ملکہ بنتی ہے مگر پھر دھیان سنگھ فیکٹر سے اسے زہر دے دیا جاتا ہے اور اس کا سر کچلا ملتا ہے۔ کہانی تو آگے چلتی ہے مگر وہ ڈیرہ سے متعلق نہیں ہے۔

About The Author