جولائی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎بدھائی ہو بدھائی: کی جاناں میں کون؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

زنخا بنانے کے عمل کو ”آختہ“ کہا جاتا ہے۔ ارون دھتی رائے کے ناول میں اسی طریقے سے آفتاب کا عضو تناسل نکال دیا گیا اور ویجائنا چھوڑ دی گئی۔ آفتاب/ انجم پیدائشی طور پہ ہرمیفرو ڈائٹ تھا جس میں مرد اور عورت دونوں کے اعضائے مخصوصہ موجود تھے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منڈا جمیا اے، لکھ لکھ مبارکاں!
ہائے میں قربان! لمبی عمر والا ہووے، بھاگ لگے رہن!
شادمانی ہو شادمانی!

ہم سب کی زندگی کے کسی نہ کسی صفحے پر یہ منظر نقش ہے۔ زرق برق چیختے چلاتے رنگوں کے ملبوسات میں کچھ تھرکتے ہوئے جسم، میک اپ زدہ چہروں کی مخصوص آواز دور دور تک اعلان کرتی ہوئی کہ محلے کے فلاں گھر میں ہیجڑے موجود ہیں۔

بچہ پیدا ہوا ہو یا شادی کا ہنگام، ان کی موجودگی لازم ہوتی۔ کم عمر ہونے کے باوجود ان چہروں پہ نسائیت کی کمی ہمیں نظر آ جاتی۔ ہماری یہ تماش بینی ہمارے بڑے بھائی کے نزدیک انتہائی مخرب اخلاق تھی۔ خیر اخلاق کا تو ہمیں علم نہیں لیکن ان کو قریب سے دیکھنے کے شوق میں ایک بار ہم اپنی ٹانگ ضرور تڑوا بیٹھے پھر بھی تجسس کبھی کم نہیں ہوا۔ وہی سوال کہ کون ہیں یہ لوگ اور کیوں ہیں مختلف؟ کیوں ہے یہ ان کا پیشہ؟

حالیہ برسوں میں ٹرانس جینڈرز پہ بننے والی فلمز اور کہانیوں نے اس حساس موضوع کو معاشرے کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے لیکن سچ پوچھیے تو ابھی تک بہت سے سوالوں کا جواب یہ اکلوتا لفظ نہیں دے سکتا۔

ٹرانس جینڈر کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کسی بھی انسان کی صنفی شناخت جو پیدائش کے وقت اسے الاٹ کی گئی، وہ انسان اس سے متفق نہیں اور دنیا میں کسی بھی اور کو اس کے خیال/ سوچ/ مرضی سے اختلاف کا حق نہیں۔

مثال کے طور پہ آج اگر کوئی خاتون یہ کہہ دیں کہ وہ وہ نہیں جس کا ٹھپا دنیا انہیں لگا چکی ہے۔ وہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ مس ایکس کی بجائے مسٹر ایکس ہیں تو روئے زمین پر کسی مائی کے لال کو یہ حق حاصل نہیں کہ ان کے پاجامے میں جھانک کر انہیں چیلنج کرے اور ثبوت مانگے۔

مس ایکس کی زندگی، ان کی ذات، شناخت اور خواہش پہ صرف انہی کا حق ہے۔ مس ایکس ظاہری حلیہ تبدیل کرے یا نہ کرے، ڈاکٹروں کے پاس جا کر جسم میں تبدیلیاں کروائے یا نہ کروائے، یہ سب اس کی مرضی۔ اسے ٹرانس مین کہلانے کا حق اس کے ذہن نے دیا ہے۔ ذہن کی سجھائی ہوئی ایک ایسی راہ جیسی اور سب فیصلوں میں ذہن سجھاتا ہے۔

اسی طرح مسٹر وائی اگر اعلان کریں کہ ان کے خیال میں وہ مس وائی ہیں تو تب بھی پاجامے میں جھانکنا تو دور کی بات، کوئی ان سے پوچھ بھی نہیں سکتا کہ کیوں بھئی کیوں؟ یہ الہام کیوں اور کیسے ہوا؟ مسٹر وائی کی مرضی ہے جناب کہ جب چاہیں خود کو ٹرانس وومن کہلوائیں۔ رہا کپڑے، حلیہ اور علاج وہ ان کی صوابدید پہ۔

اگلے مرحلے میں اگر مس ایکس اور مسٹر وائی یہ فیصلہ کریں کہ وہ ذہنی طور پہ جو سمجھتے ہیں انہیں اس کے مطابق نظر بھی آنا ہے تب لباس، حلیے کی تبدیلی اور جسم کے ساتھ ڈاکٹروں کی چھیڑ چھاڑ کا مرحلہ آئے گا۔ اب مس ایکس اور مسٹر وائی ٹرانس سیکسوئل پکارے جائیں گے یعنی وہ ٹرانس جینڈر جنہوں نے تبدیلیوں کے ساتھ ٹرانس سیکسوئل ہونے کا راستہ اختیار کیا۔

فرض کیجئے کہ مس ایکس یا مسٹر وائی محسوس کرتے ہیں کہ قطع نظر پیدائشی صنفی شناخت کے، وہ ایسی کسی پہچان کے حق میں نہیں۔ وہ جنسی شناخت کے کسی بھی ڈبے میں گھس کر نہ مس بننا چاہتے ہیں، نہ مسٹر، تو پھر کیا کیا جائے؟

اس مشکل کا بھی حل ڈھونڈا جا چکا ہے، ایسے سب لوگ جو اپنے آپ کو صنف کی لکیر میں کھڑا نہیں کرنا چاہتے، وہ they پکارے جائیں گے، معنی صنفی شناخت نہ رکھنے والے لوگ۔ اس صورت حال میں بھی حلیہ، لباس یا پاجامے کے اندر کا معاملہ ان کا ذاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو non binary نان بائینری کہا جاتا ہے۔

ٹرانس جینڈر ہی کی چھتری تلے وہ لوگ آتے ہیں جو فطرت کی نا انصافی کا شکار ہو کر مبہم پہچان کے ساتھ انٹر سیکس کہلاتے ہیں۔ ٹرو ہرمیفروڈائٹ، سوڈو ہرمیفروڈائٹ، کروموسومز کا اتھل پتھل، ہارمونز کی کمی زیادتی کا اسی کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔ آج کل انہیں ڈی ایس ڈی Disorders of sex differentiation کا نام دیا گیا ہے۔

ٹرانس جینڈر کی ایک اور شاخ ”تیسری جنس“ کہلاتی ہے جو روایتی طور پہ ہیجڑا یا کھسرا کے طور پہ پہچانے جاتے ہیں۔

ایشیا کے اس خطے میں جس کے ہم مکین ہیں، ان کا ذکر چار ہزار برس پہلے کی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ کاما سوترا جیسے قدیم مخطوطات اور مہابھارت اور رامائن سی قدیم داستانیں ہیجڑوں کے ذکر سے خالی نہیں۔

سنسکرت جیسی قدیم زبان میں صنف کے لئے تین الفاظ ان کتابوں میں استعمال کیے گئے ہیں۔ مر د، عورت، اور ہیجڑا۔

کہا جاتا ہے کہ جب دیوتا رام کو اپنی راجدھانی چھوڑ کر چودہ برس کے لئے جنگل جانا پڑا انہوں نے اپنے سب ساتھیوں کو واپس جانے کو کہا۔ ہیجڑوں نے یہ حکم سن کر بھی ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ ان کی وفاداری کو دیکھ کر رام نے انہیں دوسروں کی خوشیوں میں بدھائی دینے کی طاقت عطا کی۔ گانے ناچنے اور مبارک دینے کی وہی روایت نہ صرف آج بھی قائم ہے بلکہ ہیجڑوں کو دھتکارنا آج بھی کچھ لوگوں کے نزدیک اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ انہیں یہ کام دیوی دیوتاؤں کی طرف سے سونپا گیا ہے۔

ہندو مائتھالوجی میں ہیجڑوں کا ذکر کچھ اور جگہوں پہ بھی آیا ہے۔ مہا بھارت میں شیو کھانڈی نام کا کردار پہلے مرد اور پھر عورت کے روپ میں جنم لیتا ہے۔ دیوتا کرشنا کا قرب کی وجہ سے اسے اہم سمجھا جاتا ہے۔

ہندوؤں کے ایک بھگوان شیوا کے متعلق قیاس کیا جاتا ہے کہ اپنی بیوی پاروتی کے ساتھ مل کر اس نے اردھا ناری کے روپ میں جنم لیا جس میں مرد اور عورت دونوں کی صفات شامل تھیں۔

دیوی بہو چارا ماتا کو ہیجڑوں کی سرپرست اعلی مانا جاتا ہے۔ کچھ اور جگہوں پہ دیوی ایراون کا نام بھی لیا جاتا ہے۔

مغل حکمرانوں کے دور میں ہیجڑوں کو دربار میں خاص مقام حاصل رہا۔ ان ہیجڑوں یا خواجہ سرا میں وہ مرد بھی شامل تھے جو پیدائشی طور پہ مرد پیدا ہوتے تھے لیکن آپریشن کے ذریعے عضو تناسل اور خصیے کاٹ کر انہیں زنخا بنا دیا جاتا تھا۔ ان کا کام حرم کی حفاظت اور ملکہ کی خدمت ہوتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر یہ لوگ ملکہ یا بادشاہ کے رازدار وفادار ساتھی ثابت ہوتے تھے۔

زنخا بنانے کے عمل کو ”آختہ“ کہا جاتا ہے۔ ارون دھتی رائے کے ناول میں اسی طریقے سے آفتاب کا عضو تناسل نکال دیا گیا اور ویجائنا چھوڑ دی گئی۔ آفتاب/ انجم پیدائشی طور پہ ہرمیفرو ڈائٹ تھا جس میں مرد اور عورت دونوں کے اعضائے مخصوصہ موجود تھے۔

ایک اور کنفیوژن ٹرانس جینڈر کی رومانوی شناخت کا ہے۔ جان لیجیے کہ صنفی شناخت کا جنسی رومان / جنسی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔

یاد رکھیے کہ پاجامے کے اندر کیا ہے؟ اور بند دروازے کے پیچھے دو انسان کیا چاہتے ہیں؟ ان دونوں امور کے متعلق کسی بھی طرح کی ٹوہ لگانا اخلاقی اور غیر ضروری تو ہے ہی، کسی اور کے دل پر کاری ضرب لگا کر انہیں مزید اداس کرتا ہے۔

ارون دھتی رائے کہتی ہیں،
”پتہ ہے خدا نے ہیجڑے کیوں بنائے؟
نہیں، کیوں؟
ایک تجربہ تھا۔ اس نے طے کیا کچھ ایسا بنائے، ایسی زندہ مخلوق جس میں خوش رہنے کا مادہ ہی نہ ہو ”

بشکریہ: ڈی ڈبلیو

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: