اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل علم شاید جانتے ہوں، لیکن میرے علم میں ادب کی ایسی کوئی صنف نہیں. بلکہ اس موضوع پر گفتگو بھی ملفوف الفاظ میں کی جاتی ہے.لگتا ہے اس صنف کی poineer ہونے کا اعزاز عزیزہ بینا بخاری کو ہی ملے گا.
وہ ویسے بھی گنی چنی مزاح /شگفتہ نگاروں میں سے ایک ہیں. میں کوئی سپر لیٹو ڈگری استعمال کرکے کسی کے حسد یا ناراضی کا باعث تو نہیں بننا چاہتا لیکن یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ میں خود ان کی برجستگی سے بارہا لطف اندوز ہوا.بالخصوص جب وہ اردو میں کوئی سرائیکی لفظ ٹانکتی ہیں تو میں سوچتا رہ جاتا ہوں کہ کیا یہاں اور کچھ آ بھی سکتا تھا؟
یوسفی کا حوالہ دینا چاہا، لیکن کوئی ناراض نہ ہو، یہ ان کے سائے میں ضرور پلی ہے… بلکہ ہماری ایک پوری نسل!
بینا کی اختراع وہ خطوط اور ڈائری نما تحریریں ہیں جو وہ اپنے جلد متوقع بچے سے باتیں کرتے ہوئے، اس کا جسم اپنے جسم میں محسوس کرتے ہوئے، اس کے مستقبل کے سپنے بنتے، اس کے والد کی بے چینی دیکھتے ہوئے کرتی ہے. بطن میں بچے کی حرکت عورتیں شوہروں، ماؤں، دائیوں، ڈاکٹروں کو ضرور محسوس کراتی ہیں، باقی سب کیلئے یہ ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے. لیکن بینا نے اس لمس سے ہونے والے اپنی مامتا کے احساس میں سبھی اپنوں کو شریک کیا ہے.
یہ سب کچھ چھپ جائے تو ایک نئی چیز ہوگی، اس صنف کو حمل نامہ، امید نامہ، خوشی نامہ، کوئی بھی نام دے دیں، بانی جگنو کی امی ہوگی.
کتاب کا ایک نام بھی بینا کی تحریر سے ہی اخذ کیا ہے…” نیند کم، خواب زیادہ”….. لیکن وہ اردو کی استاد، مجھ ٹُکر نویس سے یقیناً بہتر نام چن سکتی ہیں.
کچھ نمونے:
جگنو!
میری کوکھ کی روشنی! میرے تصور کی تازگی! اور میری ذات کی توسیع!
آؤ اس بات پہ خوش ہو جائیں کہ ہم ماں بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ ہیں تمھیں لکھے خطوط کا کوئی تیسرا چوتھا حصہ اختصار کے ساتھ فیس بک پہ شیئر کرنا شروع کیا تو دوستوں کے مختلف رویے سامنے آئے کوئی محبت اور حوصلہ افزائی بھیج رہا ہے، تو کوئی نظر انداز کر رہا ہے، دعا بھیجنے والوں میں ایک سیلقہ شعار ہیں اور دوسرے وہ جن کو دعا کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔
……
جو وقت خوشی کا ہے اس میں سے غم کشید کرنے یا زور مسئیں غم کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی غم ایک اور زور دار کیفیت ہوتی ہے اس پہ تمھیں کان میں بتاؤں گی۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس میں زیادہ لوگوں کو شامل نہیں کرنا ہوتا صرف حوصلے سے اس وقت کے گزر جانے کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔
اچھا۔۔۔! آآ گلا پا تے سموں لحظہ ہک ۔۔۔۔۔کئی گالھ تساں وی سنڑائی کرو چپ غڑپ دا پتر آ۔۔۔۔۔۔کھڑے او صرف پلٹیاں مارن تے
جگنو! میرا پیارا بیٹا! ماں تجھ پہ ست لکھ واری صدقے!
…….
جگنو!
او میڈا بخت پتر! جیوویں تے شالا لکھ پیا تھیویں!
اج تیڈی ما کوں اوندی ما ڈیکھے ہا تاں دم کرے تے اسم پھونکے ہا اج تاں رات منائی اے اساں ما پتر جھمر اتے گاونڑیں نال۔۔۔
میڈا لعل! میڈا نکا بال! توں آ تاں سہی پیر فرید دی کافی گاسوں، رفعت سئیں دے قصے پڑھسوں، لونڑی شہر کوں ملخ بنڑیسوں، نور شاہ دا میلہ گھمسوں، ویساخیاں ڈیکھسوں، مٹھائیاں کھاسوں، مور تیڈے نال پائلاں پیسن، رنگ برنگے پر کھنڈیسن، بگلے چڑیاں اڈ اڈ ویسن، کاں لالیاں رج رج کھاسن، چار چودھاروں برکت ہوسی، سوجھل ہوسی، ما تیڈی تاں ٹھر ٹھر پوسی، پیو تیڈا تیڈے نال ٹرسی، ہکو جہیے تواکوں جوڑے ٹھاسن، ڈاڈا ڈاڈی خش تھی بہسن، جتھ پیر ہوسی تیڈا اوتھ خیر ہوسی، سندھو دی منڑ تے پڑ جول لیسوں، شاعر سڈیسوں، دول وجیسوں، سنگت ودھیسوں، جھمراں پیسوں، نچسوں گاسوں، رنگ رنگیلا تیڈا جھولا ہوسی، لعل دی لوری آپ لکھیساں، یار کوں جھوٹے آپ جھٹیساں، توڑیں تھکساں ترٹ جو پوساں، متھے تے وٹ اصلوں نہ پیساں، جے کر آسن تلک چا لیساں، چندر تارے زمین تے آسن، ڈیوے بتیاں تیڈی لاٹ تے بلسن، آ خش تھیووں اساں نال جو ہیں، بدھنڑے تیڈے تے پھندن لگ گئیں، منہ رکھا وی پالش تھی گئے، سیپ آلے چولے تیڈی ماسی پٹھئن، پیریں تیڈے گھنگھرو آ گئین، مندری بنڑ گئی اے، چھاتی میڈی ڈدھ نال بھر گئی اے، پیو تیڈا وی ڈیہنہ بیٹھا گنڑدے، ہنڑ تاں تیڈا آونڑ بنڑدے، وقت تے آویں، اپنڑی ہر شے آپ ہنڈاویں، جوانیاں مانڑے شالا سوہنڑا وسیں
میڈا شاہ تے خان! میڈی جند تے جان
……….
رات آنکھوں سے چپ چاپ گزر گئی ہے جگنو! جب اپنا رازداں بستر اجنبی ہو جائے، بدن کی کروٹوں اور بستر کی سلوٹوں سے کرچیوں کا گماں تڑپتا ہوا اٹھنے لگے، کتے بھونکنا بند کر دیں، سور اور گیدڑ بھی چلانے سے تھک جائیں، سناٹے بولنے لگیں اور آس پاس کسی نادیدہ وجود کے ہونے کا وہم ساتھ جاگنے لگے، گھڑی کی سوئیاں پیروں سے پتھر باندھ لیں ایسی راتیں حاملہ ماؤں پہ کسی بوڑھے مریض کے بے دم لمحوں سے زیادہ بھاری ہو جاتی ہیں بدن گھسیٹ کر ڈیوٹی پہ بھی پہنچنا ہے میری جان! اور وہاں خالی نگاہوں سے اپنا مصرف تلاش کرنا ہے مزدور اگر ایک دن بھی مزدوری سے منہ پھیر لے تو اس کے اپنے ہاتھ اس کو نکھٹو ہونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں جانا تو پڑے گا ناں اگرچہ جسم پہ ماس ہاتھ سے کوٹے ہوئے قیمے کی طرح بھربھراہٹ کا احساس دلا رہا ہے اور ہڈیوں کو جیسے بے رحم لمحوں نے کسی سر پھرے بلوچ کی سمجھ کر تمام رات مختلف طریقوں سے توڑنے کی کامیاب کوشش کی ہو مجھے اپنے تصور سے قوت بھیجو کہ میں آنکھیں میچوں توجلن کے کسی پل میں تمھارے ننھنے سے ہاتھ چمک اٹھیں جو میرے پٹری جمے ہونٹوں پہ اپنی ملائم پوروں سے لپ بام لگاتے ہوں مجھے آپ شفا مل جائے جو تمام درد کو نشانوں سمیت مٹا دے۔
انسان اپنی مدت کی توسیع کا کس قدر خواہشمند ہے وہ قانون قدرت کی پاسداری میں کٹھن مراحل کو خوش اسلوبی سے سمجھوتے میں ڈھال لیتا ہے۔
میرے بے قرار بوسے کے مالک! آؤ میری گود میں آ جاؤ میں تمھاری روشنی سے ساری دنیا کو چمکا دوں۔
…..
جگنو!
توں ہک واری میڈے ہتھیں آ سہی چوم چوم لال نہ کیتم تاں میکوں ما نہ سڈیں۔
کھڑکی کو شٹ اپ کہنے کے لیے خود اٹھی ادھر سے تم نے پیٹ میں پلٹی مار کر سہیلی کی تلخیوں، کھڑکی کی بکواس اور اپنے ابا کی سانسوں کا رومانس سب کو اپنی ایک پلٹی تلے الٹا دیا۔ اگرچہ ہمارا خطہ مونجھ کا ہے لیکن تمھارے ساتھ مجھے خوشی زیادہ پسند ہے جب تم اپنے ملائم ہاتھوں کا لمس مجھے دو گے وہ لمحہ ان گلابوں سے زیادہ مہکتا ہوا ہو گا جن کی پتیاں میں روزانہ شام کو کیاری سے چن کر سرہانے رکھتی ہوں تاکہ شب بھر میری سانسیں معطر ہو کر تم تک پہنچیں. مجھے بھی اب معلوم ہوا ہے کہ عورت کا مکمل پیار شاید اس کا بچہ ہوتا ہے ہائےےےےے اگر مائیں اپنے بچوں کے گیت لکھنا شروع کر دیں تو رہ جائیں گے ہجر و وصال کے تمام قصے ان کے مقابل، لیکن مائیں خاموشی اوڑھ لیتی ہیں یار!
ًخاموشی اور شور کی بات کل پہ اٹھا رکھتے ہیں ایک اور پلٹی مارو ناں مگر ناف والی نہیں پلیز اس سے مجھے ناگوار سی حساسیت ہوتی ہے پاسے والی اچھی ہوتی ہے اس پہ میں مسکرا سکتی ہوں۔
سنو!
پاری دے دو ایک۔۔۔۔۔میٹھی ماکھی سی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر