ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک جانب منی مرگ تھا تو دوسری جانب شکمہ ( ش پر زبر کے ساتھ )۔ منی مرگ سرینگر کے نزدیک ہے اور شکمہ لداخ کے دارالحکومت لیہہ کے سے زیادہ دور نہیں۔ گلگت بلتستان میں شامل یہ علاقے کشمیر کی تقسیم سے پیشتر ریاست کشمیر کا ہی حصہ تھے۔ منی مرگ سے آگے لائن آف کنٹرول کے نزدیک ایک مقام کامری سے گلتری اور شکمہ تک کے علاقے میں مجھے ایک برس سے کچھ زیادہ رہنا پڑا تھا۔ دریا، پہاڑ، سبزہ، چیڑ کے درخت، برف، چشمے، پھول، زولو (گائے اور یاک کی مخلوط نسل ) اور ترشون (مارمٹس)، لائن آف کنٹرول کے اس پار سے اس پار اپنے ریوڑوں کے ساتھ بلا تکلف آتے جاتے گوجر، کئی کئی فرغلوں میں لپٹی، کمر پر لکڑیوں کے گٹھڑ اٹھائے، بھببکے دیتی مقامی خواتین یہ سب مجھے کشمیر یاد نہ دلا پائے تھے۔ وجہ یہ کہ کشمیر یا تو ہم سے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی طرح دور تھا یا پھر ذہن میں بٹھائے گئے کشمیر کی مانند تھا۔ ذہن میں زبردستی گھسیڑی ہر بات کی مخالفت کرنا ہر باشعور انسان پر فرض ہوتا ہے چنانچہ میرے ذہن میں "کشمیر بنے گا پاکستان” کی بجائے ہمیشہ "کشمیر کشمیریوں کا” رہا۔
5 فروری کو یوم کشمیر پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلٰی نواز شریف کے کہنے پر منایا گیا تھا۔ 6 اگست 1990 تک بے نظیر کی حکومت تھی جسے تمام کرکے غلام مصطفٰی جتوئی کی نگران حکومت میں انتخابات کرائے گئے تھے اور یوں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تھے۔ ویسے بھی نواز شریف کا ماضی آمر ضیاءالحق کا ساتھی ہونے کی وجہ سے کم از کم میرے جیسوں کے نزدیک داغدار تھا چنانچہ میں 1991 میں روس منتقل ہونے کے بعد، ماسکو میں پاکستان کے سفارت خانے میں منائے جانے والے پانچ فروری کے احتجاجی اجلاس میں کبھی شریک نہیں رہا البتہ اس بار میں ضرور شریک ہونے جاؤں گا۔
معلوم ہے کیوں؟ یہ ماہیت قلبی ریاست جموں و کشمیر پر قابض ہندوستان کی ہی ایک صحافی و ادیب خاتون اروندھتی رائے کے تازہ ترین ناول "دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینیس” پڑھنے سے ہوئی ہے۔ چناچہ میں نے پاکستانی سفارتخانے کے قنصل بابر بلال کی جانب سے فون پر دی گئی دعوت کو قبول کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کی۔ اس ناول پر چونکہ میں پہلے ہی تبصرہ لکھ چکا ہوں، جو غالبا” آپ میں سے کسی کی نظر سے بھی گذرا ہو، اس لیے بات ناول پر نہیں بلکہ زبردستی کیے جانے اور تشدد پر ہوگی جس کی بنیاد پر لوگوں کے آزاد رہنے کی خواہش کو پامال کیا جاتا ہے البتہ اتنا کہنا ضروری ہے کہ اسقدر ہمت کسی غیر ملکی صحافی اور ادیب نے بھی نہیں کی جتنی جوانمردی کا ثبوت نازک سی اس ادھیڑ عمر خاتون نے دیا اور غاصب ہندوستان کی حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔
آزادی ایک ایسی شے ہے کہ اگر وہ نامکمل بھی ہو تب بھی احساس ضرور ہوتا ہے کہ مارنے والے بہرحال اپنے ہیں، چاہے وہ مار کر دریا میں ہی کیوں نہ بہا دیں لیکن مرتے دم تک یہ امید ضرور رہتی ہے کہ مار کر چھاؤں میں تو پھینکے گے کم از کم۔ اس کے برعکس اگر مارنے والا ہو ہی غیر تو کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ ہاں امید دلانے والا چاہے غیر بھی ہو وہ غیر نہیں رہتا، اپنا بن جاتا ہے جیسے اروندھتی رائے کشمیریوں کے لیے اب غیر نہیں رہیں۔ وہ غیر ہیں تو مودی ایسے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی حکومت کے لیے۔
ایک اور بات جسے اب بھلایا جانا ممکن نہیں رہا کہ عالمی طاقتیں بلکہ واحد عالمی طاقت کچھ برسوں سے طے کر چکی ہے، دنیا میں کہیں بھی آزادی کی کوئی تحریک تب تک آزادی کی تحریک نہیں مانی جائے گی جب تک اس تحریک کو چاہے وہ کسی حکمران سے آزادی کی لڑائی ہو یا کسی غاصب ملک سے نجات کی مسلح جدوجہد، کو اس کی اشیرباد حاصل نہ ہو۔ بصورت دیگر ہر مسلح سرگرمی، بین الاقوامی دہشت گردی ہی شمار کی جائے گی۔ یہ بات بھی البتہ طے ہے کہ غاصب ملک کسی خطے کو جمہوری طریقے سے آزادی دینے سے رہا چاہے وہ سپین جیسا متمدن اور ترقی یافتہ ملک ہی کیوں نہ ہو۔ برصغیر کے ملکوں کی تو بات ہی کیا کرنی۔
تیسری بات جس نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ اس کے خلاف حکومت ہند کی معاندت کو بڑھا دیا ہے وہ "کشمیر بنے گا پاکستان” کا نعرہ ہے جو اب سرینگر سے پہلگام تک پوری وادی میں گونجنے لگا ہے۔ اس نعرے کو کیوں اور کس نے فروغ دیا اس کے بارے میں لب کشائی کسی کو بری لگے گی تو کسی کے لیے موجب مسرت ہوگی تاہم یہ شرارت کشمیر کو کشمیریوں کا رہنے دینے سے روکنے کی ایک کڑی ضرور بن چکی ہے۔ پاکستان کبھی یہ دعوٰی نہیں کرے گا کہ یہ نعرہ اس کی جانب سے دیا ہوا ہے کیونکہ پاکستان کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا حامی رہا ہے۔ ہندوستان کی ایجنسیاں، ظاہر ہے مان کر نہیں دیں گی کہ یہ منفی نعرہ انہوں نے متعارف کروایا ہے، تاکہ آزادی خواہ لوگوں کو پہچان کر ان پر عرصہ حیات تنگ کر سکیں۔
کشمیر کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس سے مختلف گروہوں کے مفادات وابستہ ہو چکے ہیں۔ حکومت ہند نے آزادی خواہ تنظیموں میں اپنے ایجنٹ کس طرح گھسائے ہوئے ہیں، اس سے متعلق ویسے بھی سوچا جا سکتا ہے لیکن اس کی حقیقت اروندھتی کا ناول پڑھنے سے زیادہ واضح ہوتی ہے۔
کشمیر برصغیر کا فلسطین ہے، جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین غصب کی ہے اسی طرح ہندوستان نے بھی کشمیریوں کے کشمیر جنت نظیر پر نہ صرف غاصبانہ قبضہ کیا ہے بلکہ وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس نے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی حامل دو ملکوں کو تلوار کی دھار پر رکھا ہوا ہے۔ ستر برس ہونے کو آئے ہیں مگر پاکستان سے ملحق آزاد کشمیر اور لائن آف کنٹرول کے اس جانب کے جموں کشمیر کے لوگ ایک نہیں ہو پائے۔ اقوام متحدہ اس بارے میں چپ ہے۔ ہندوستان نے اٹوٹ انگ کی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ فلسطین کی آزاد ریاست تو چاہے بن جائے لیکن کشمیر کا معاملہ سلجھنے کی کوئی خاص امید بہر طور نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ