محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گذشتہ چند ہفتوں سے لندن کی ایک عدالت میں پاکستانی ٹائپ مقدمہ چل رہا تھا۔ پاکستانی نژاد برطانوی شہری گوہر خان پر الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان میں سرکاری ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی سازش کی۔
گوہر خان تقریباً سب مان گئے۔ گورایہ کو مارنے کا بیعانہ بالکل لیا تھا۔ دو دفعہ اس کے گھر کا چکر بھی لگایا، ایک فٹ لمبی چھری بھی خریدی۔ گوہر خان کے فون پر سینکڑوں میسج تھے جس میں وہ گورایہ کی سپاری دینے والوں سے پیسوں پر بھاؤ تاؤ کر رہا ہے۔
چھوٹی مچھلی مارنی ہے، کس نے کتنا کمیشن لینا ہے، اگر چھوٹی مچھلی والا کام ہو گیا تو یورپ میں ماہی گیری کے اور ٹھیکوں کا بھی وعدہ تھا۔
گوہر خان نے عدالت میں کسی ثبوت کو نہیں جھٹلایا۔ اپنے دفاع میں یہ کہا کہ چونکہ ہمارے اعمال کو نیت کے حساب سے جانچا جانا چاہیے تو میں نے پیسے پکڑے، قتل کا وعدہ بھی کیا، گورایہ کے گھر کے چکر بھی لگائے، چھری بھی خریدی لیکن میری نیت اس کو مارنے کی نہیں تھی، میں تو کسی مڈز اور باس نامی شخص کے ساتھ چھوٹا موٹا فراڈ کر رہا تھا۔
گوہر خان کا عدالت میں واحد دفاع یہ تھا کہ ظالمو میں قاتل نہیں ہوں فراڈیا ہوں۔
جیوری نے ان کی نیک نیتی والے دفاع کو نہیں مانا۔ مجرم ٹھہرایا، سزا ہونا ابھی باقی ہے۔
پاکستان کی حکومت اور اداروں نے اس مقدمے پر مکمل خاموشی رکھی۔ ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کو قتل کرنے کے لیے ایک تیسرے پاکستانی نژاد برطانوی کو پیسے دے رہا ہے تو حکومت کا کیا لینا دینا۔
لیکن میں قاتل نہیں فراڈیا ہوں، پاکستان میں ایک سوچ کا نام ہے جو سیٹھوں، سیاستدانوں، ججوں، جاسوسوں سب میں پائی جاتی ہے۔
پاکستان میں پراپرٹی والے سیٹھ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو قبضہ گروپ یا لینڈ مافیا لگتے ہیں، ہم تو ریاست مدینہ میں نئی بستیاں بسا رہے ہیں، گوجرانولہ میں بیچ ہاؤس بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے عسکری تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ہم آپ کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں، ہم آپ کو ایسے لگتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو اپنے پچھواڑے میں چھپائیں۔ تھوڑی نالائقی ہو گی، ہماری نیت پر شک نہ کیا جائے۔
پرویز مشرف نے بھی تقریباً یہی کہا ہے کہ میں نے آئین کا آرٹیکل چھ تھوڑی ہی توڑا ہے میں تو خود بیمار شیمار رہتا ہوں، ڈاکٹر سے پوچھ لو۔
نواز شریف بھی یہی کہیں گے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو میرے ڈاکٹروں سے پوچھو۔
راؤ انوار بھی یہی کہتا پایا جائے گا کہ میں تو ایک فرض شناس پولیس افسر اور بہادر بچہ ہوں، یہ چار سو پتہ نہیں کس کی چاند ماری میں مارے گئے۔
عمران خان تو صبح شام فرماتے ہیں کہ میں وزیراعظم نہیں ہوں بس چیخیں نکلوانے کا شوق ہے۔
اب تو لندن میں ہمارے الطاف بھائی بھی ایک عدالت میں پیش ہو گئے ہیں۔ ان پر نفرت انگیز تقریریں کرنے کا الزام ہے۔ شاید کراچی سے باہر رہنے والے نہ جانتے ہوں لیکن الطاف بھائی کے لیے کراچی میں سب سے مقبول نعرہ تھا کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔
الطاف بھائی اپنے دفاع میں جج صاحب کو اپنی پہلی کتاب پیش کر سکتے ہیں جس کا نام ہی ‘فلسفہ محبت’ ہے۔
محبت کے فلسفے پر کتاب لکھنے والے پر نفرت پھیلانے کا الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔
اگر جج نہ مانے اور دفاع میں ایک پپی اِدھر اور ایک پپی اُدھر بھی نہ کرنے دے، تو الطاف بھائی اپنے دفاع میں کہہ سکتے ہیں جج صاحب میں تو رہنما ہوں ہی نہیں، میں تو منزل ہوں، پیار کی منزل۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر