افتخار الحسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ قبل تک ملتان کی سیاست تین مخدومین کے گرد گھومتی تھی وقت کے ساتھ ایک مخدوم اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے اب ملتان ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی سیاست دو مخدومین سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے گرد گھومتی ہے۔ تیسرے مخدوم جاوید ہاشمی بیماری اور پھر مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اور پھر تحریک انصاف کو خیر باد کہہ کر آزاد حیثیت سے شکست کے بعد سیاسی میدان سے باہر ہوگئے۔
اب ملتان شہر کی سیاست ہو یا پھر جنوبی پنجاب کی یہ دونوں مخدوم ٹاپ پوزیشن میں ہی رہتے ہیں ۔چاہے اپوزیشن میں ہوں یا اقتدار میں اپنی ایک الگ حیثیت رکھتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ان کی گونج رہتی ہے۔
دونوں مخدومین ماضی میں اپنی سیاسی وفاداریاں بھی بدلتے رہے۔ شاہ محمود قریشی مسلم لیگ کی حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ رہے پھر پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ملک کے وزیر خارجہ رہے اور اب تحریک انصاف کی حکومت میں بھی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اسی طرح سید یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ جونیجو کے دور حکومت میں وفاقی وزیر ریلوے رہے اور بعد میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ یہ دونوں مخدوم اپنی ذات میں بھی ایک پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔عوام پارٹیوں سے زیادہ ان سے عقیدت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ہمیشہ اقتدار یا پارلیمنٹ کا حصہ رہتے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں سے دونوں مخدومین ایوان بالا میں آمنے سامنے ہیں۔ بات جنوبی پنجاب الگ صوبہ سے شروع ہوئی جس میں سید یوسف رضا گیلانی نے ایوان بالا میں کہا کہ ہمیں الگ سیکرٹریٹ نہیں بلکہ الگ صوبہ چاہیے جو حکومت نے عوام سے وعدہ کیا۔ مینڈیٹ کا بہانہ نہ بنایا جائے، اپوزیشن سے بات چیت کرکے جنوبی پنجاب کے عوام کو الگ صوبہ دیا جائے۔ ہم کسی کے رعایا نہیں اور حکومت کس طرح صوبائی ہیڈ کوارٹر کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ اس کا حق آنے والی اسمبلی کو دیا جائے ۔سید یوسف رضا گیلانی کی اس تقریر کو جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ پسند کیا گیا اور عوام میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی جس پر وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر نیت ٹھیک ہوتو کچھ مشکل نہیں اور اب بھی وقت موجود ہے وزیراعظم سے مشاورت کے بعد وزیر خارجہ نے اپوزیشن کو الگ صوبہ کی قانون سازی کیلئے مدد مانگ لی اور خط لکھ دیئے۔ جن کا بقول وزیر خارجہ تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
اسی دوران سینٹ اجلاس میں اسٹیٹ بینک کا بل پیش کیا گیا اور اپوزیشن اکثریت کے باوجود شکست کھا گئی۔ حکومت بالخصوص وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو موقع میسر آیا جس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن سید یوسف رضا گیلانی کا ٹوئیٹر پر شکریہ ادا کردیا کہ آپ کی بدولت بل پاس ہوگیا اور اپوزیشن کو اکثریت کے باوجود شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت متعدد حکومتی وزراء نے بھی سید یوسف رضا گیلانی کو ٹارگٹ کیا اور شکریہ ادا کرتے رہے۔ دنیا نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی پلاننگ کے تحت سینٹ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ انتہائی اہم بل جسے بلاول زندگی موت کا سوال کہہ رہے تھے اور اسی بل کو پاس کرنے میں لیڈر آف دی اپوزیشن نے بھرپور مدد کی ۔ انتہائی اہم بل پیش کیا گیا اور لیڈر آف دی اپوزیشن کا غائب ہونا ایک بڑا سوال ہے۔
رات 12 بجے اسے ایجنڈے میں شامل کیاگیا ،پھر بھی بآسانی ملتان سے اسلام آباد پہنچا جا سکتا ہے مگر سید یوسف رضا گیلانی صرف سینیٹر بننے کیلئے سینیٹ میں نہیں پہنچے بلکہ چیئر مین سینٹ بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور جس طرح سینیٹر منتخب ہوئے اور پھر لیڈر آف دی اپوزیشن منتخب ہوئے سب جانتے ہیں ۔ اگلے اجلاس میں وزیر خارجہ نے سید یوسف رضا گیلانی کے استعفے کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ لیڈر آف دی اپوزیشن کمپرومائزڈ ہیں جس پر ماحول خاصا گرم ہوا جس پر لیڈر آف دی اپوزیشن سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وزیر خارجہ کی یہ تقریر ایوان کی توہین ہے اور اتنی گری ہوئی گفتگو کی توقع نہ تھی۔
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ مزید جواب ایوان میں ہی دیا جائے گا۔ سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید علی موسیٰ گیلانی نے کہا کہ وزیر خارجہ اور ان کا خاندان ہمیشہ سے ہی کمپرومائزڈ ہے۔انگریزوں کی مدد کرنے میں یہ پیش پیش تھے۔ دونوں مخدومین کے مابین لفظی جنگ جاری ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی دونوں ہی ملکی سیاست کیلئے انتہائی اہم ہیں اور جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے ان کی جنگ کسی صورت بھی فائدہ مند نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے عوام ان دونوں سے ہی جنوبی پنجاب الگ صوبہ کی توقع رکھتے ہیں۔ جس طرح بطور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان سمیت جنوبی پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے جال بچھا کر جنوبی پنجاب کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کیا اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی جنوبی پنجاب کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے جڑی عوامی توقعات شاید دم توڑ چکی ہیں۔ اب جنوبی پنجاب الگ صوبہ سمیت وعدوں کی تکمیل کا واحد حل وزیر خارجہ ہی ہیں۔ وقت کم اور چیلنجز زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ