محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض اوقات اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی زندگی اور صحت سے جڑی کتنی اہم اور ضروری چیزیں نظرانداز کر دیتے ہیں ۔ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے بچوںکی صحت سے متعلق بہت اہم باتیں اپنی لاعلمی ، بے خبری اور غیر ذمہ داری کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔ پچھلے دنوں اس حوالے سے کئی تجربے ہوئے۔
پچھلے ہفتے آنکھوں کے علاج کے حوالے سے ایک معروف چیریٹی آرگنائزیشن پی او بی (Prevention of Blindness)ٹرسٹ کی بریفنگ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا۔ لاہور کے معروف آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ اس کے روح رواں ہیں جبکہ ڈاکٹر زاہد لطیف اس کے سیکرٹری ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے، ان کے ساتھ کئی سال پہلے ایک بہت اہم اور یادگار طویل سفر کیا تھا ، جس میں مصر اور نائیجریا گئے تھے ۔مجھے فیما یعنی فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے مدعو کیا تھا۔ نائیجریا کی تین چار اہم ریاستوں کانو، قدونہ، دوسی وغیرہ میں ڈاکٹروں کی اس عالمی تنظیم نے فری آئی کیمپ لگائے تھے۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے علاوہ سعودی عرب، اردن وغیرہ کے ڈاکٹر بھی شامل تھے، مقامی میڈیکل سٹاف نے معاونت کی۔وہاں پر اندازہ ہوا کہ پاکستانی ڈاکٹر نہ صرف ماہر فن ہیں بلکہ مسلم دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ عرب ڈاکٹروں نے بتایا کہ پاکستانی اور ترک ڈاکٹر سب سے قابل اور ماہر سمجھے جاتے، ان کے بعد مصریوں کا نمبر ہے۔
ڈاکٹر انتظار بٹ کے ساتھ پاکستانی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ریاض، ڈاکٹر طاہر،ڈاکٹر قاضی وغیرہ نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ اتنی تیزرفتاری اور صفائی سے یہ سفید موتیا کا آپریشن کرتے کہ نائیجرین اور عرب ڈاکٹر دنگ رہ جاتے۔ کئی پیچیدہ آپریشن بھی انہوں نے بڑی سہولت سے نمٹا ئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ نائیجریا، سوڈان، صومالیہ، چاڈ، برکینا فاسو جیسے پسماندہ افریقی ممالک میں ہزاروں آنکھوں کے مریض ہیں، مگر ڈاکٹر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔پاکستان سے پی او بی جیسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹروہاں جا کر فری آپریشن کرتے ۔وہاں پر غربت اور مفلوک الحالی کی خوفناک شکل دیکھنے میں آئی۔ نائیجریا میں آئی کیمپ کے بعد پاکستانی ٹیم کی جانب سے مقامی مریضوں کے لئے کھانا پکوانے کی روایت ڈالی گئی، گوشت کا شوربے والاسالن اور ساتھ مقامی انداز میں پکے چاول وغیرہ۔مجھے یاد ہے کہ شام کو ایک بوڑھا شخص جس کی ایک آنکھ پر آپریشن کی پٹی لگی تھی ، وہ آیا اور مقامی زبان میں شکریہ ادا کرنے لگا۔ مقامی میڈیکل ٹیکنیشن نے ترجمہ کر کے بتایا کہ یہ بابا کہہ رہا ہے آپ کی بدولت تیس سال بعد میری آنکھ کا آپریشن ہوا اور میں نے زندگی میں پہلی بار گوشت کا سالن کھایا ہے۔سن کر ہم لوگ لرز گئے۔پتہ چلا کہ بیشتر جگہو ں پر یہی صورتحال ہے۔
حکومتوں کی کرپشن اور نالائقی کے باعث دنیا کے چند سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک نائیجریا کے عوام کا یہ حال تھا۔کئی جگہوں پر حیرت سے ہم نے دیکھا کہ پٹرول پینسٹھ نائیرا سے ایک سو پینسٹھ نائیرا تک فروخت ہو رہا ہے۔ یہ ان کی مقامی کرنسی تھی اور تب دو روپے کا ایک نائیرا آتا تھا۔کنٹرول ریٹ پینسٹھ تھا اور وہاں میلوں لمبی قطاریں تھیں، جبکہ بلیک میں سرعام وہی پٹرول سوا سو، ڈیڑھ سو اور حتیٰ کہ ایک سو پینسٹھ نائیرا میں بھی بک رہا تھا۔
نائیجیریا کے سب سے بڑے صوبے (ریاست)قدونہ میں کیمپ کے بعد مفلوک الحال مریضوں کو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے خود سنا۔ زندہ باد کا لفظ پاکستانی ڈاکٹروں نے سکھایا، ورنہ نائیجرین تو اپنی مقامی زبان ہاﺅسا میں بولتے ۔ہاﺅسا زبان پر عربی کے کچھ اثرات بھی ہیں۔ میرے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہوا، جس کے بارے میں آج بھی سوچوں تو لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
ہمارے پاکستانی دوست ہر جگہ خاکسار کا بھرپور تعارف کرانے کے چکر میں زور دے کر کہتے کہ یہ بڑا صحافی ہے ۔ نائیجرین ہاﺅسا زبان میں صحافی کو ”ڈان جریدہ “کہتے ہیں۔ مقامی نائیجرین اپنی عادت کے مطابق بانچھیں کھلا کر بڑے بڑے مضبوط دانتوں کی نمائش کرتے اور کہتے اچھا اچھا ڈان جریدہ اور پھر زور دے کر کہتے ببّا۔” ڈان جریدہ ببّا“۔ لفظ ببّا کچھ یوں منہ بھر کر کہا جاتا کہ لگتا گالی دی جا رہی ہے۔پتہ چلا کہ اس سے مراد بڑا یا معروف ہے۔ایک طرف تو ڈان کا خطاب اور پھر ساتھ گالیں پھلا کر ببا بھی کہہ ڈالنا۔ یہاں تک بھی غنیمت تھا، مگربعض ناہنجار ایسے بھی تھے جو ببّا کہنے کے ساتھ دونوں ہاتھ پھیلا کر لمباچوڑا ہونے کا اشارہ بھی کرتے۔ یہ گستاخانہ اشارہ خاکسار کی صحت اور چھ فٹ دو انچ قد کے ساتھ ہنڈرڈ پلس کے جی وزن کی طرف تھا۔ ہم نے ایسی ہردریدہ دہنی کا مقابلہ ایک باوقاراور ڈھٹائی سے بھرپور مسکراہٹ سے کیا،تاہم بعد میں نائیجرین مقامی ڈاکٹر سے سرگوشی کی ،بھائی مہربانی کر کے مجھے سینئر صحافی نہ بناﺅ، میں جونیئر ہی ٹھیک ہوں، مجھے ببّا نہیں بننا۔ یہ اور بات کہ قاہرہ ائیرپورٹ پر یہی منظر ایک اور انداز سے دہرایا گیا۔ عربی میں صحافی کے لئے کوئی مخصوص لفظ ہے جس میں پریس آتا تھا، ساتھ وہ کبیراً کہتے اور پھر وہی انداز ، مسکرا کر ہاتھ پھیلانے کا اشارہ اور کہنا کہ جسمانی طور پر بھی کبیریعنی بڑا ہی ہے ۔تب عربی سے ناواقفیت کا تاثر دیتے ہوئے ،سردبرفانی مسکراہٹ سے ان کی شوخے پن کی حوصلہ شکنی کرتا۔ دل ہی دل میں سوچتا کہ کم بختو اسی وجہ سے اسرائیل تم پر حاوی ہے۔
چند دن کا سفر تھا، مگر ملاقاتیں اتنی زیادہ تھیں کہ نائیجریا کے کلچر، تہذیب اور اندرونی مسائل کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ نائیجریاجاتے ہوئے مصر رکے تھے، مصری دارالحکومت قاہر ہ میں مجھے اخوان المسلمون کے رہنماﺅں ، خاص کر ان کے سربراہ (مرشد عام )مہدی عاکف کا انٹرویو کرنے کا موقعہ بھی ملا۔ ڈاکٹر انتظار کی وجہ سے ایسا ممکن ہوپایا تھا ، کیونکہ اخوان سے متعلق ڈاکٹروں کی تنظیم عرب میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ ان کے دوستانہ روابط تھے۔اخوان المسلمون سے تب گہری دلچسپی پیدا ہوئی، ان کے بارے میں بہت کچھ جانا، بہت سا لکھا۔ آج بھی اخوانی دل کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اللہ ان کی زندگیوں میں آسانی لائے، دین کی خاطر انہوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔
بات نائیجریااور مصر کے سفر کی طرف نکل گئی ، وہ یادیں ہیں ہی ایسی کہ ذہن میں نقش ہیں۔ لاہور میں اقبال ٹاﺅن کے ساتھ ملتان روڈ پر سکیم موڑ ایک معروف جگہ ہے ۔ وہاں پی اوبی نے چھوٹا سا آنکھوں کا ہسپتال بنا رکھا ہے، جہاں ماہانہ دو ڈھائی ہزار مریض دیکھے جاتے اور بہت سوں کے فری آپریشن بھی ہوتے ہیں۔پچھلے ہفتے اسی ہسپتال میں پی اوبی کی اس بریفنگ سے پتہ چلا کہ لاہور اور بعض دوسرے شہروں میں سکول کے بچوں کی آنکھوں کا معائنہ کیا گیا توبیس پچیس فیصد بچوں کی نظر کمزور تھی، انہیں عینک کی ضرورت تھی، مگر وہ خود ، ان کے والدین اور ٹیچر اس حوالے سے غافل تھے۔ ڈاکٹر زاہد لطیف نے بتایا کہ ہر جگہ تیسرا چوتھا لازمی طور پر کمزور نظر والا تھا۔ ایسا جس کے لئے بورڈ دیکھنا
مشکل تھا۔ پی او بی والوں نے ان میں عینکیں تقسیم کیں، کچھ کو عینک بنوانے کا کہا گیا۔ بعد میں فالواپ رپورٹ سے پتہ چلا کہ ان بچوں کی تعلیمی کارکردگی کئی گنا بہتر ہوگئی۔ دراصل وہ بچے کمزور نظر کی وجہ سے بورڈ نہیں پڑھ پاتے تھے، انہیں سمجھ نہ آتا۔ رزلٹ خراب آتے تو گھر والے ناراض ہوتے اور ٹیچروں کی برہمی بھی سہنا پڑتی۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر انتظار بٹ نے کئی واقعات سنائے کہ ان کے جاننے والوں کے بہت سے ڈرائیور حضرات دور کی کمزور نظر کے باوجود گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کا معاملہ نہایت آسانی سے صرف ایک عینک سے حل ہوسکتا تھا، مگر انہیں خدشہ تھا کہ کہیں کمزور نظر ہونے کا علم ہونے پرمالکان نوکری سے نہ نکال دیں۔ سکیم موڑ پر ویگنوں کا اڈا بھی ہے، وہاں کے ڈرائیوروں کے فری ٹیسٹ کئے تو علم ہوا کہ تیس پینتیس فی صد ڈرائیوروں کو عینک کی ضرورت ہے۔ نوکری جانے کے خوف سے یہ عینک نہیں بنوانا چاہتے تھے۔ سکولوں میں بیس سے پچیس فیصد کا سن کر ہم حیران رہ گئے کہ صوبے بھر میں یہ تعداد تولاکھوں میں بنتی ہے۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے والدین میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، سال میں ایک یا دو بار اپنے بچوں کی نظر ہی چیک کرا لیں، ممکن ہے کمزور تعلیمی نتائج کی ایک وجہ یہ ہو۔ ہم نے ڈاکٹر انتظار سے پوچھا کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی کمزور نظر کی وجہ کیا ہے ؟ جواب ملا، غیر معمولی سکرین ٹائم (موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ)۔یہ سن کر میں نے سوچا کہ پھر تو اسی ہفتے اپنے بچوں کی نظر چیک کرانی چاہیے۔ پھر یہ خیال آیا کہ ٹرانسپورٹ سے متعلقہ حکام ہر ڈرائیور کے لئے سالانہ نظر ٹیسٹ لازمی بنا دیں۔ اگلا خیال یہی آیا کہ تب جعلی ویکسین کارڈ کی طرح نظرٹھیک ہونے کے جعلی سرٹیفکیٹ بننے لگیں گے۔
پچھلے ہفتے آنکھوں کے علاج کے حوالے سے ایک معروف چیریٹی آرگنائزیشن پی او بی (Prevention of Blindness)ٹرسٹ کی بریفنگ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا۔ لاہور کے معروف آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ اس کے روح رواں ہیں جبکہ ڈاکٹر زاہد لطیف اس کے سیکرٹری ہیں۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے، ان کے ساتھ کئی سال پہلے ایک بہت اہم اور یادگار طویل سفر کیا تھا ، جس میں مصر اور نائیجریا گئے تھے ۔مجھے فیما یعنی فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے مدعو کیا تھا۔ نائیجریا کی تین چار اہم ریاستوں کانو، قدونہ، دوسی وغیرہ میں ڈاکٹروں کی اس عالمی تنظیم نے فری آئی کیمپ لگائے تھے۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے علاوہ سعودی عرب، اردن وغیرہ کے ڈاکٹر بھی شامل تھے، مقامی میڈیکل سٹاف نے معاونت کی۔وہاں پر اندازہ ہوا کہ پاکستانی ڈاکٹر نہ صرف ماہر فن ہیں بلکہ مسلم دنیا میں ان کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ عرب ڈاکٹروں نے بتایا کہ پاکستانی اور ترک ڈاکٹر سب سے قابل اور ماہر سمجھے جاتے، ان کے بعد مصریوں کا نمبر ہے۔
ڈاکٹر انتظار بٹ کے ساتھ پاکستانی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ریاض، ڈاکٹر طاہر،ڈاکٹر قاضی وغیرہ نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ اتنی تیزرفتاری اور صفائی سے یہ سفید موتیا کا آپریشن کرتے کہ نائیجرین اور عرب ڈاکٹر دنگ رہ جاتے۔ کئی پیچیدہ آپریشن بھی انہوں نے بڑی سہولت سے نمٹا ئے۔ وہاں معلوم ہوا کہ نائیجریا، سوڈان، صومالیہ، چاڈ، برکینا فاسو جیسے پسماندہ افریقی ممالک میں ہزاروں آنکھوں کے مریض ہیں، مگر ڈاکٹر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔پاکستان سے پی او بی جیسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹروہاں جا کر فری آپریشن کرتے ۔وہاں پر غربت اور مفلوک الحالی کی خوفناک شکل دیکھنے میں آئی۔ نائیجریا میں آئی کیمپ کے بعد پاکستانی ٹیم کی جانب سے مقامی مریضوں کے لئے کھانا پکوانے کی روایت ڈالی گئی، گوشت کا شوربے والاسالن اور ساتھ مقامی انداز میں پکے چاول وغیرہ۔مجھے یاد ہے کہ شام کو ایک بوڑھا شخص جس کی ایک آنکھ پر آپریشن کی پٹی لگی تھی ، وہ آیا اور مقامی زبان میں شکریہ ادا کرنے لگا۔ مقامی میڈیکل ٹیکنیشن نے ترجمہ کر کے بتایا کہ یہ بابا کہہ رہا ہے آپ کی بدولت تیس سال بعد میری آنکھ کا آپریشن ہوا اور میں نے زندگی میں پہلی بار گوشت کا سالن کھایا ہے۔سن کر ہم لوگ لرز گئے۔پتہ چلا کہ بیشتر جگہو ں پر یہی صورتحال ہے۔
حکومتوں کی کرپشن اور نالائقی کے باعث دنیا کے چند سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک نائیجریا کے عوام کا یہ حال تھا۔کئی جگہوں پر حیرت سے ہم نے دیکھا کہ پٹرول پینسٹھ نائیرا سے ایک سو پینسٹھ نائیرا تک فروخت ہو رہا ہے۔ یہ ان کی مقامی کرنسی تھی اور تب دو روپے کا ایک نائیرا آتا تھا۔کنٹرول ریٹ پینسٹھ تھا اور وہاں میلوں لمبی قطاریں تھیں، جبکہ بلیک میں سرعام وہی پٹرول سوا سو، ڈیڑھ سو اور حتیٰ کہ ایک سو پینسٹھ نائیرا میں بھی بک رہا تھا۔
نائیجیریا کے سب سے بڑے صوبے (ریاست)قدونہ میں کیمپ کے بعد مفلوک الحال مریضوں کو پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے خود سنا۔ زندہ باد کا لفظ پاکستانی ڈاکٹروں نے سکھایا، ورنہ نائیجرین تو اپنی مقامی زبان ہاﺅسا میں بولتے ۔ہاﺅسا زبان پر عربی کے کچھ اثرات بھی ہیں۔ میرے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہوا، جس کے بارے میں آج بھی سوچوں تو لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
ہمارے پاکستانی دوست ہر جگہ خاکسار کا بھرپور تعارف کرانے کے چکر میں زور دے کر کہتے کہ یہ بڑا صحافی ہے ۔ نائیجرین ہاﺅسا زبان میں صحافی کو ”ڈان جریدہ “کہتے ہیں۔ مقامی نائیجرین اپنی عادت کے مطابق بانچھیں کھلا کر بڑے بڑے مضبوط دانتوں کی نمائش کرتے اور کہتے اچھا اچھا ڈان جریدہ اور پھر زور دے کر کہتے ببّا۔” ڈان جریدہ ببّا“۔ لفظ ببّا کچھ یوں منہ بھر کر کہا جاتا کہ لگتا گالی دی جا رہی ہے۔پتہ چلا کہ اس سے مراد بڑا یا معروف ہے۔ایک طرف تو ڈان کا خطاب اور پھر ساتھ گالیں پھلا کر ببا بھی کہہ ڈالنا۔ یہاں تک بھی غنیمت تھا، مگربعض ناہنجار ایسے بھی تھے جو ببّا کہنے کے ساتھ دونوں ہاتھ پھیلا کر لمباچوڑا ہونے کا اشارہ بھی کرتے۔ یہ گستاخانہ اشارہ خاکسار کی صحت اور چھ فٹ دو انچ قد کے ساتھ ہنڈرڈ پلس کے جی وزن کی طرف تھا۔ ہم نے ایسی ہردریدہ دہنی کا مقابلہ ایک باوقاراور ڈھٹائی سے بھرپور مسکراہٹ سے کیا،تاہم بعد میں نائیجرین مقامی ڈاکٹر سے سرگوشی کی ،بھائی مہربانی کر کے مجھے سینئر صحافی نہ بناﺅ، میں جونیئر ہی ٹھیک ہوں، مجھے ببّا نہیں بننا۔ یہ اور بات کہ قاہرہ ائیرپورٹ پر یہی منظر ایک اور انداز سے دہرایا گیا۔ عربی میں صحافی کے لئے کوئی مخصوص لفظ ہے جس میں پریس آتا تھا، ساتھ وہ کبیراً کہتے اور پھر وہی انداز ، مسکرا کر ہاتھ پھیلانے کا اشارہ اور کہنا کہ جسمانی طور پر بھی کبیریعنی بڑا ہی ہے ۔تب عربی سے ناواقفیت کا تاثر دیتے ہوئے ،سردبرفانی مسکراہٹ سے ان کی شوخے پن کی حوصلہ شکنی کرتا۔ دل ہی دل میں سوچتا کہ کم بختو اسی وجہ سے اسرائیل تم پر حاوی ہے۔
چند دن کا سفر تھا، مگر ملاقاتیں اتنی زیادہ تھیں کہ نائیجریا کے کلچر، تہذیب اور اندرونی مسائل کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ نائیجریاجاتے ہوئے مصر رکے تھے، مصری دارالحکومت قاہر ہ میں مجھے اخوان المسلمون کے رہنماﺅں ، خاص کر ان کے سربراہ (مرشد عام )مہدی عاکف کا انٹرویو کرنے کا موقعہ بھی ملا۔ ڈاکٹر انتظار کی وجہ سے ایسا ممکن ہوپایا تھا ، کیونکہ اخوان سے متعلق ڈاکٹروں کی تنظیم عرب میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ ان کے دوستانہ روابط تھے۔اخوان المسلمون سے تب گہری دلچسپی پیدا ہوئی، ان کے بارے میں بہت کچھ جانا، بہت سا لکھا۔ آج بھی اخوانی دل کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اللہ ان کی زندگیوں میں آسانی لائے، دین کی خاطر انہوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔
بات نائیجریااور مصر کے سفر کی طرف نکل گئی ، وہ یادیں ہیں ہی ایسی کہ ذہن میں نقش ہیں۔ لاہور میں اقبال ٹاﺅن کے ساتھ ملتان روڈ پر سکیم موڑ ایک معروف جگہ ہے ۔ وہاں پی اوبی نے چھوٹا سا آنکھوں کا ہسپتال بنا رکھا ہے، جہاں ماہانہ دو ڈھائی ہزار مریض دیکھے جاتے اور بہت سوں کے فری آپریشن بھی ہوتے ہیں۔پچھلے ہفتے اسی ہسپتال میں پی اوبی کی اس بریفنگ سے پتہ چلا کہ لاہور اور بعض دوسرے شہروں میں سکول کے بچوں کی آنکھوں کا معائنہ کیا گیا توبیس پچیس فیصد بچوں کی نظر کمزور تھی، انہیں عینک کی ضرورت تھی، مگر وہ خود ، ان کے والدین اور ٹیچر اس حوالے سے غافل تھے۔ ڈاکٹر زاہد لطیف نے بتایا کہ ہر جگہ تیسرا چوتھا لازمی طور پر کمزور نظر والا تھا۔ ایسا جس کے لئے بورڈ دیکھنا
مشکل تھا۔ پی او بی والوں نے ان میں عینکیں تقسیم کیں، کچھ کو عینک بنوانے کا کہا گیا۔ بعد میں فالواپ رپورٹ سے پتہ چلا کہ ان بچوں کی تعلیمی کارکردگی کئی گنا بہتر ہوگئی۔ دراصل وہ بچے کمزور نظر کی وجہ سے بورڈ نہیں پڑھ پاتے تھے، انہیں سمجھ نہ آتا۔ رزلٹ خراب آتے تو گھر والے ناراض ہوتے اور ٹیچروں کی برہمی بھی سہنا پڑتی۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ وجہ کیا ہے؟
ڈاکٹر انتظار بٹ نے کئی واقعات سنائے کہ ان کے جاننے والوں کے بہت سے ڈرائیور حضرات دور کی کمزور نظر کے باوجود گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کا معاملہ نہایت آسانی سے صرف ایک عینک سے حل ہوسکتا تھا، مگر انہیں خدشہ تھا کہ کہیں کمزور نظر ہونے کا علم ہونے پرمالکان نوکری سے نہ نکال دیں۔ سکیم موڑ پر ویگنوں کا اڈا بھی ہے، وہاں کے ڈرائیوروں کے فری ٹیسٹ کئے تو علم ہوا کہ تیس پینتیس فی صد ڈرائیوروں کو عینک کی ضرورت ہے۔ نوکری جانے کے خوف سے یہ عینک نہیں بنوانا چاہتے تھے۔ سکولوں میں بیس سے پچیس فیصد کا سن کر ہم حیران رہ گئے کہ صوبے بھر میں یہ تعداد تولاکھوں میں بنتی ہے۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے والدین میں آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، سال میں ایک یا دو بار اپنے بچوں کی نظر ہی چیک کرا لیں، ممکن ہے کمزور تعلیمی نتائج کی ایک وجہ یہ ہو۔ ہم نے ڈاکٹر انتظار سے پوچھا کہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی کمزور نظر کی وجہ کیا ہے ؟ جواب ملا، غیر معمولی سکرین ٹائم (موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ)۔یہ سن کر میں نے سوچا کہ پھر تو اسی ہفتے اپنے بچوں کی نظر چیک کرانی چاہیے۔ پھر یہ خیال آیا کہ ٹرانسپورٹ سے متعلقہ حکام ہر ڈرائیور کے لئے سالانہ نظر ٹیسٹ لازمی بنا دیں۔ اگلا خیال یہی آیا کہ تب جعلی ویکسین کارڈ کی طرح نظرٹھیک ہونے کے جعلی سرٹیفکیٹ بننے لگیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر