نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تیسرا بیانیہ ۔۔!||طاہر محمود اعوان

"اسٹیبلشمنٹ " کے کردار کو لیکر ہمارے ہاں دو قسم کے خیالات یا بیانئے پائے جاتے ہیں ،ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل سیاستدانوں کی کرپشن اور نالائقی کی وجہ سے ہیں اور دوسری قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کو تو کسی نے کام نہیں کرنے دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آئندہ الیکشن میں اب 15،16 ماہ رہ گئے ہیں ،سیاسی جماعتوں نے اسی بنا پر اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں ،فروری میں پاکستان پیپلزپارٹی اور مارچ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) نے تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف مارچ کا اعلان کر رکھا ہے ۔ حکومت بظاہر ان اعلانات کو سنجیدہ نہیں لے رہی اورتجزیہ نگاروں کی اکثریت بھی اپوزیشن کی اس بھاگ دوڑ کو محض الیکشن تیاریوں سے تعبیر کر رہی ہے ۔ پی ڈی ایم نے احتجاج کے لئے 23 مارچ کی تاریخ دے رکھی ہے جسے قوم "یوم پاکستان ” کے طور پر مناتی ہے اور افواج پاکستان کی جانب سے "عظیم الشان پریڈ” کا مظاہرہ کیاجاتا ہے ۔اس لحاظ سے پی ڈی ایم کی طرف سے مارچ کے لئے اس دن کا بطور خاص انتخاب معنی خیز ہے ۔ پیپلزپارٹی نے غالباََ اسی وجہ سے خود کو پی ڈی ایم سے دور رکھا ہے ،اس کی طرف سے "مارچ ” کی بجائے فروری میں احتجاج کی کال ثابت کرتی ہے کہ” فرزند زرداری” حکومت کیخلاف عوامی جذبات کو کیش کرنے کے ساتھ ساتھ "پیا ” کو بھی راضی کرنا چاہتے ہیں ۔ "پیا من بھائے” کے مقام پر تو "پی ڈی ایم” والے بھی فائز ہونا چاہتے ہیں لیکن طریقہ کار اپنا اپنا ہے ۔یوں اگر یہ کہا جائے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی "منزل ” ایک ہی ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یعنی بقول شیخ رشید ” یہ چاہتے ہیں جو ہاتھ حکومت کے سر پر ہے وہ ان کے سروں پر بھی رکھا جائے ” اعتراض ہمیں یہ ہے کہ اگر ساری جہدوجہد اسی بات کے لئے ہے کہ "ایمپائر ” کی انگلی کسی طرح اپنے حق میں کھڑی کروائی جائے تو پھر بھانت بھانت کے نظریے اور بیانئے گھڑنے کی کیاضرورت ہے ؟ "پیا من بھائے” کے نام سے ایک ہی بیانیہ رکھ لیں تاکہ عوام کی کنفیوژن بھی دور ہو اور آپ کو بھی کچھ حاصل وصول ہوجائے ۔۔!

ہمارے ایک سابق وزیراعظم نے اقتدار سے بیدخلی کے بعد "ووٹ کو عزت دو” اور سول سپرمیسی” کا نعرہ لگایا تھا جو اب "لندن” اور "راولپنڈی” کے درمیان کہیں "اٹک” گیا ہے ۔ہماری سیاست میں "اسٹیبلشمنٹ ” کا کردار ایک اٹل حقیقت ہے اور کسی کو بھی اس سے اس وقت تک کوئی مسئلہ نہیں جب تک یہ کردار ان کے حق میں رہے ،جیسے ہی کوئی جماعت اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اسکے اندر "انقلابیت ” انگڑائیاں لینے لگتی ہے ۔ البتہ اسکی ساری جہدوجہد،نام نہاد انقلابیت ،سول سپرمیسی کے جھوٹے نعروں کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح "اسٹیبلشمنٹ ” کو دبائو میں لاکر اقتدار میں اپنا حصہ وصول کیاجائے ۔

"اسٹیبلشمنٹ ” کے کردار کو لیکر ہمارے ہاں دو قسم کے خیالات یا بیانئے پائے جاتے ہیں ،ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ملک کے تمام مسائل سیاستدانوں کی کرپشن اور نالائقی کی وجہ سے ہیں اور دوسری قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کو تو کسی نے کام نہیں کرنے دیا ،مسائل کی اصل جڑ "اسٹیبلشمنٹ ہے ۔یہ دونوں بیانئے دراصل الزام در الزام کا تسلسل ہیں ۔ حقیقت میں پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار کوئی ایک طبقہ نہیں ،بلکہ ہر ادارے اور ہر شعبے میں موجود "ایلیٹ ” نے ملکر ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے ۔ یہ ایلیٹ کلاس آپکو زندگی کے ہر شعبہ میں ملے گی ،یہ سیاستدانوں کی شکل میں ہوگی ،یہ بیوروکریسی کی صورت ملے گی ،یہ افواج کے اوپر کے رینکس اور عدلیہ کے معزز ججز کی صورت نظر آئے گی ۔ کہیں یہ وڈیرہ شاہی ،سرداروں اور جاگیرداروں کا لباس پہنے ہوئے ہوگی ۔ حتی کے یہ "ایلیٹ کلاس "آپکو مولوئوں ،پیروں اور گدی نشیوں کے لبادے میں بھی نظر آجائے گی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ہرشعبے کی ایلیٹ اپنے ہی شعبے کے باقی لوگوں کا بھی استحصال کر رہی ہے، بڑے سیاست دان چھوٹے پارٹی ورکروں کا استحصال کرتے ہیں ، پیر اور گدی نشین مریدوں کا استحصال کر رہے ہیں ،بڑے مولوی ،چھوٹے مولوئوں اور مدارس کے بچوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ بڑے سرکاری افسران اختیارات و مراعات کے بل بوتے پر چھوٹے سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتی اور استحصال کررہے ہیں اور فوج کے بڑے افسران اور انکی اولادوں کا لائف سٹائل عام سپاہیوں سے بالکل مختلف ہے ۔ یہ ایلیٹس اپنے اپنے طبقے کے کمزور افراد کا خون چوسنے کے بعد پھر ملکر پورے ملک اور عوام کی بھی کھال اتارتے ہیں ۔ لہذا جو کوئی بھی موجودہ مسائل کا ذمہ دار فوج سمیت کسی ایک شعبے کو سمجتا ہے وہ غلطی پر ہے ، اس ملک میں صرف دو طبقے ہیں ، ایک استحصال کرنے والا اور دوسرا استحصال سہنے والے ، نہ تو استحصال کرنے والوں میں فوجی ، سویلین ، لبرل ،مذہبی ، پنجابی سندھی پٹھان بلوچی یا کشمیری کی کوئی تفریق ہے اور نہ ہی استحصال سہنے والوں میں رنگ مذہب زبان کلچر اور شعبے کا کوئی امتیاز ہے ، غریب چاہے سندھ میں ہو ، پنجاب میں ہو ، بلوچستان میں ہو یا خیبر پختونخوا میں ہو یا پھر فوجی ہو یا سویلین اس کے دکھ درد اور مسائل ایک جیسے ہیں ، اسی طرح اشرافیہ کا نمائندہ کسی بھی شہر، گائوں، صوبے یا زبان رنگ نسل کا ہو ان کے زندگی کا لائف سٹائل اور عیش و عشرت ایک جیسی ہے ۔ یہ سب اندر سے ایک ہوتے ہیں۔ انھوں نے کمال مہارت سے عام عوام کو مختلف سیاسی جماعتوں ، فرقے ،لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کر رکھا ہے تاکہ یہ کبھی ایک ہوکر ان کیخلاف بغاوت نہ کرسکیں اور یہ اب تک اپنی اس پالیسی میں کامیاب ہیں ۔ جب تک اس اشرافیہ کا ملکر مقابلہ نہیں کیا جاتا اور ان کی طرح ہی پاکستان کے غریب پسے ہوئے طبقات اور مڈل کلاس اکھٹی نہیں ہوتی تب تک یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا ۔

یہ بھی پڑھیے:

کارکنوں کی زبان بندی ۔۔۔طاہر محمود اعوان

مولانا کے مارچ کی سیاسی کلاسیفکشن۔۔۔ طاہر محمود اعوان

راتوں رات لہجے تبدیل،کیا ریاست نے احتساب سے منہ موڑ لیا ؟طاہر محمود اعوان

طاہر محمود اعوان کی دیگر تحریریں پڑھیں

About The Author