نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے||ملک سراج احمد

آپ ایک لمحہ کو سوچیں تو آپ کو بھی ہنسی آئے گی کہ جس ملک کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہوجہاں ایک بہت بڑی آبادی کو احساس کفالت اور احساس راش پروگرام کے تحت نقد رقم دی جارہی ہو جہاں غریب لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لیئے لنگر خانے کھولے جارہے ہوں اور پناہ گاہیں تعمیر ہورہی ہوں ۔

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جلدی کس بات کی ہے زرا ایک منٹ رکیئے اور زرا غور کیجئے ۔ اپنے گردوپیش کا جائزہ لیجئے سوچیئے ہمارے ارد گرد کیا ہورہا ہے ۔کیا عام آدمی مہنگے بجلی کے بلوں سے پریشان ہے دیکھیئے کیا پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے اشیائے خوردونوش مہنگی ہورہی ہیں کیا عام آدمی دووقت کی روٹی کے حصول کے لیے مشکلات کا شکار ہے ۔کیا کسان اپنی فصل کی بہتری کے لیے کیمیائی کھاد کی خاطر لائنوں میں لگے ہوئے ہیں ۔اگر یہ سب کچھ ہورہا ہے تو سوچنا یہ ہے کہ ہمارا میڈیا کیا دکھا رہا ہے ۔کیا ہمارا میڈیا دکھا رہا ہے کہ عدالت نے تکذیب نکاح کی اپیل مسترد کرتے ہوئے میرا کو عتیق الرحمن کی بیوی قرار دے دیا۔میڈیا دکھا رہا ہے کہ حریم شاہ کے ہونٹوں کی سرجری نا ہونے سے اس کے ہونٹ کی شیپ بگڑ گئی ہے۔
مطلب ہماری پریشانیاں اور مسائل کچھ اور ہیں جبکہ شور کچھ اور باتوں کا ہے ۔کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہے کیا وجہ ہے کہ اصل مسائل کا سرسری تذکرہ کیوں ہوتا ہے نان ایشوز کو عوام کے سامنے کیوں ڈسکس کیا جاتا ہے ۔ میرا کے تکذیب نکاح کا معاملہ ہو یا حریم شاہ کے ہونٹوں کی خوبصورتی ہو یہ کب عام آدمی کے مسائل ہیں۔ وہ جس کو سستی دوائی نہیں مل رہی جس کو روزگار نہیں مل رہا جہاں امن وامان مخدوش حالت میں ہو، سٹریٹ کرائم میں اضافہ سے پریشان عوام کی مشکلات کچھ اور ہیں
تو پھر یہ سب کیا ہے اورکیوں ہورہا ہے ایسا ؟ تو اس ضمن میں ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا ہمیشہ سیاسی اشرافیہ کے لیئے ہراول دستے کا کردار ادا کرتا ہے ۔ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت نان ایشوز کو ایشوز بنا کر حقیقی مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگر میڈیا حقیقی معنوں میں عوام کی ترجمانی کرنے لگ جائے اور عوامی سطح پر درپیش مسائل کو اجاگر کرنے لگے تو کوئی بھی حکومت چند دن سے زیادہ نہیں چل سکتی ۔لہذا اتنا سچ بولا جاتا ہے جس سے ساکھ محفوظ رہ سکے لوگوں کااعتبار قائم رہ سکے جبکہ باقی ماندہ وقت جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے
ہمیشہ ایک بات کی ہے اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ ہماری بدنصیبی کہ ہمیں کچھ بھی خالص اور کھرا نہیں ملا۔فوجی آمر آئے تو انہوں نے سیاست دان بننے کی کوشش کی اور سیاست دان آئے تو انہوں نے آمر کا لبادہ اوڑھ لیا۔ایماندار بیوروکریٹ کام نہیں کرسکتا جبکہ بے ایمان افسر ہمیں پسند نہیں ہیں۔مروجہ نظام تعلیم سے نوکری نہیں مل سکتی اور اچھی تعلیم دینے کے قابل نہیں ہیں۔ نجی ہسپتالوں کا علاج مہنگا اور دسترس سے باہر ہے جبکہ سرکاری شفا خانے سوائے موت بانٹنے کے کچھ نہیں کر رہے ۔ پولیس سے امن وامان کی خواہش بجا سہی مگر یہ بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے مترادف ہے جس کے سبب امن وامان کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ۔
معیشت چلانے کے تمام دعوے اپنی جگہ ، معاشی اعشاریوں میں بہتری اور معیشت کی ٹھیک سمت میں سفر کی افسانوی داستانیں اپنی جگہ مگرحقیقت یہ ہے کہ آئے روز منصوبہ بندی یہ ہوتی ہے کہ نیا قرض کس ملک سے اور کس مد میں لیا جائے۔قرض پر قرض لیتی ہماری سیاسی اشرافیہ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اس قرض کی واپسی کیسے ہوگی ۔ مگر وہ کیوں سوچیں قرض تو عوام نے واپس کرنا ہے لہذا پریشانی کی کوئی بات نہیں بس توجہ صرف قرض لینے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
کیونکہ پیسے ہوں گے تو ترقیاتی کام ہوں گے اور ترقیاتی کام سیاست کےلیے بہت ضروری ہیں ۔اب سیاست اور ریاست میں سے سیاست کے انتخاب کا مطلب یہ ہے کہ ریاست جائے بھاڑ میں فی الحال اپنا وقت گذارا جائے ۔نتیجہ یہ کہ نسل در نسل مقروض ہوتے جارہے ہیں۔ پھر ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے ٹیکسز کی بھرمار نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔
آپ ایک لمحہ کو سوچیں تو آپ کو بھی ہنسی آئے گی کہ جس ملک کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہوجہاں ایک بہت بڑی آبادی کو احساس کفالت اور احساس راش پروگرام کے تحت نقد رقم دی جارہی ہو جہاں غریب لوگوں کے پیٹ بھرنے کے لیئے لنگر خانے کھولے جارہے ہوں اور پناہ گاہیں تعمیر ہورہی ہوں ۔جہاں پولیو کے قطروں سے لے کر مختلف بیماریوں کی ویکیسن بطور امداد مل رہی ہو وہاں اورنج لائن ، میٹرو اور بی آر ٹی پشاور جیسے منصوبے کیا زیب دیتے ہیں۔
جہاں ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہو تو اس گلستاں کا انجام کیا ہوگا اس کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ ابھی تو کچھ نہیں بگڑا ابھی تو قرض کی مئے مل رہی ہے اور خمار سے آنکھیں سرخ ہیں۔ جس دن قرض ملنا بند ہوا اور نشہ ہرن ہوا تو پھر پتہ چلے گا کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔ بڑے طمطراق سے نیا پاکستان بنانے نکلے تھے اب یہ حالت ہے کہ نا تو نیا پاکستان ہم سے بن سکا اور نا ہی اب پرانا واپس مل سکتا ہے مطلب نا گھر کے رہے اور نا ہی گھاٹ کے یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے ۔
مگرپریشانی کی چنداں ضرورت نہیں ہے ابھی تبدیلی سرکار کی کچھ مدت باقی ہے امید کامل ہے کہ جس طرح سرکار چل رہی ہے یہ کشتی کسی کنارے لگا کرہی چھوڑے گی ۔اور کچھ ہو یا نا ہو ایک کام ضرور ہوگا اور وہ یہ کہ کم سے کم تبدیلی کا بھوت سر سے اتر جائے گا۔اور اگر ایسا ہوگیا تو یہ بھی کسی انعام سے کم نہیں ہوگا مگر ایک کہاوت ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں جاتے ۔

————————————————————-
مصنف سے رابطے کیلئے
رابطہ نمبر 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

About The Author