دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈاکٹر حیدر بلوچ کی رحلت ایک بڑا سانحہ||انور ساجدی

انگریزوں نے سرزمین سے غداروں کی ایک پوری فصل تیار کی جو کانٹوں سے لیس ہے اور آج انگریزوں کے جانے اور ان کے کالے جانشینوں کے دور میں بھی عوام ان کانٹوں سے زخم خوردہ ہیں۔

انور ساجدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر حیدر بلوچ کی رحلت میرے لئے ایک ذاتی صدمہ ہے اس لئے الفاظ نہیں مل رہے کہ میں اس سانحہ پر اپنے احساسات کا کس طرح اظہار کروں ایک دوست غمگسار اور محترم براہندگ اچانک ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راہی ملک عدم ہوا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر کچھ لکھنا میرے لئے بہت مشکل ہے کانپے ہوئے ہاتھوں میں لرزاں قلم اور غموں سے نڈھال بوجھل دل بہت سوگواری ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق کیچ کے انتہائی محترم خاندان اور بڑے قبیلہ سے تھا چونکہ ذاتی طور پر میں قبائلی تفریق پر یقین نہیں رکھتا اور ہماری ہمیشہ کوشش اورخواہش رہی ہے کہ بلوچ کو قبائلی تقسیم کی بجائے ایک قومی وحدت اور نیشن کے طور پر دیکھیں لیکن حکمرانوں کی لڑاؤ اور تقسیم کرو کی قرون وسطی کی پالیسیوں اور کالونیل مفادات کی وجہ سے نہ صرف 21ویں صدی میں بھی قبائلی تقسیم اور تفریق برقرار ہے بلکہ قدرتی ارتقاء کو روکنے کیلئے اسے مزید بڑھاوا دیا جا رہا ہے تاکہ برادر کشی اور علاقائی عصبیت کو فروغ ملے چونکہ عوام اتنے سادہ اور بے شعور نہیں کہ وہ کوششوں اور چالوں کو نہ سمجھ سکیں لہذا یہ ہتھیار کارگر نہیں ہونگے۔
آج ہی انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ دیکھی کہ ہندوستان کی عظیم ترین اور دولت مند ترین ریاست حیدر آبد دکن کے آخری نظام عثمان علی خان ملکہ برطانیہ اور وائسرائے ہند کے سامنے سرنگوں ہے کہنے کو تو وہ بہت بڑے والئی ریاست تھے لیکن انگریزوں کے ریکارڈ میں وہ حیدر آباد کے صوبیدار کے معمولی عہدے پر فائز تھے جب نظام حیدر آباد کا یہ حال تھا تو باقی نام نہاد والیاں ریاست کا کیا عالم ہ گا اور چھوٹے چھوٹے قبائلی سرداروں کی کیا وقعت و حیثیت ہوگی ہندوستان بھر میں یہ طبقہ کہیں نہ کہیں لاٹ صاحب کی بگھی کھینچتا ہو گا اور اپنی آزادی خودداری اور سرزمین کا سودا لگاتا ہوگا۔
انگریزوں نے سرزمین سے غداروں کی ایک پوری فصل تیار کی جو کانٹوں سے لیس ہے اور آج انگریزوں کے جانے اور ان کے کالے جانشینوں کے دور میں بھی عوام ان کانٹوں سے زخم خوردہ ہیں۔
یہ جو طبقہ ہے اس کے نزدیک اصول گلزمین سے محبت وفا اور آبرو کی کوئی قیمت نہیں ہے کہنے کو تو ڈاکٹر حیدر بلوچ کا تعلق بھی کیچ کے سردار خانوادہ سے تھا لیکن انہوں نے کبھی بطور سردار ایکٹ نہیں کیا بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ ”سنگر،، قبیلہ کے سربراہ ہیں وہ کبھی کسی کو اپنا تعارف نہیں بتاتے تھے انہوں نے تعلیم لندن سے حاصل کی تھی زندگی کا بڑا حصہ وہیں پر گزارا تھا اس لئے سماجی ارتقاء عظمت انسانیت اور احترام آدمیت ان سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
سالوں پہلے بلوچوں کے ایک اجتماع میں ایک بڑے صاحب نے اختلاف رائے پر انہیں سست کہا تھا لیکن ڈاکٹر نے ذاتی شرافت وضع داری اور بلوچیت کے مفاد میں اس کا جواب دینے سے گریز کیا اس واقعہ کے بعد جب میں لندن گیا تو وسطی لندن کے ایک فلیٹ میں ہم نے دوستوں کا ایک اجتماع بلایا اور میں نے بتایا کہ ڈاکٹر حیدر کون ہے اور ان کا خاندان کون ہے اس دوران ڈاکٹر صاحب شرما رہے تھے لجا رہے تھے اور میری باتوں کا برا منا رہے تھے کیونکہ وہ ذاتی عظمت تعریف اور توصیف کے خلاف تھے۔
ڈاکٹر صاحب قبائلی تفریق سے بہت دور تھے اس لئے اپنے نام کے ساتھ قبیلہ کی لاحقہ کی بجائے بلوچ لکھتے تھے لندن میں ان کا گھر ہر بلوچ کیلئے مہمان خانہ کی حیثیت رکھتا تھاجس طرح ان کے والد محترم تربت میں بلا امتیاز مہمان نوازی کرتے تھے ڈاکٹر صاحب نے وہ روایت لندن میں بھی اپنائے رکھی حالانکہ لندن میں کسی کے پاس ملنے تک کا ٹائم نہیں ہوتا چہ جا ئیکہ کوئی دن رات مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہے ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ صابر بلوچ کینیڈا سے لندن آئے ہیں اور وہ ملنا چاہتے ہیں ملاقات کا وقت شیرپاؤ کی کابینہ کے ایک وزیر بیرسٹر افتخار کے گھر پر طے ہوا رات کو کیا دیکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب 20افراد کا کھانا ساتھ لے کر آئے ہیں جیسے یہ لندن نہ ہو تربت ہو۔
1980ء کی دہائی میں جب وہ بی اینڈ آر کے وزیر ہوئے تو بھی ان کا کوئٹہ کا گھر ایک مہمان خانہ بنا رہا انہوں نے اپنی منفعت بخش وزارت سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا کیونکہ وہ ایک درویش صفت انسان تھے میری دانست میں حد درجہ ایماندار اور ذاتی دوستوں کے انتخاب میں محتاط تھے کم گو تھے مگر جھوٹ بولنا نہیں آتا تھا۔
سینیٹ کے انتخابات میں میرے ایک دوست نے ووٹ دینے کی درخواست کی ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ووٹ تو میں دوں گا لیکن اس شخص سے کہنا کہ مجھ سے پیسوں کی بات نہ کرے انہوں نے وعدے کے مطابق ووٹ دیا۔
میں سن 2000 ء سے کئی مرتبہ لندن گیا میں اکثر چھپنے کی کوشش کرتا تھا لیکن نہ جانے ڈاکٹر صاحب کیسے کھوج لگاتے اور فقیر جان کی ڈیوٹی لگاتے کہ دوپہر اور رات کے کھانے پر مجھے ڈھونڈ کر لائے وہ ایک ایک دوست کو یاد کرتے اور ماضی کے قصے سناتے تھے امان گچکی، صابر بلوچ، رحیم ظفر، صحافی غلام طاہر مرحوم، ڈاکٹر نعمت گچکی اور دیگر دوستوں کا اکثر تذکرہ کرتے تھے۔
ایک دفعہ جام غلام قادر نے کہا کہ ڈاکٹر حیدر بلوچ اصل میں ریاست لسبیلہ کے باشندہ ہیں وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو کیچ کا باشندہ کہتے ہیں میں نے کہا جام صاحب یہ درست ہے کہ سنگر قبیلہ کا ایک بڑا حصہ اورماڑہ میں آباد ہے جو ون یونٹ تک لسبیلہ کا حصہ تھا لیکن ڈاکٹر صاحب ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے میں نے بتایا کہ ریاست قلات کے گزٹ کے مطابق پورے مکران میں ریاست قلات کا ایک گزیٹڈ قبیلہ ہے اور وہ سنگر ہے۔
تاریخ کیا کہتی ہے کہ یہ ایک بڑا موضوع ہے اور اس مضمون میں اس کی گنجائش نہیں انگریزوں نے ایک جگہ سنگر کو گریٹ لکھا ہے اگرچہ کیچ گچکی حاکمیت کا مرکز تھا لیکن سنگر نے ہمیشہ اپنی علیحدہ شناخت برقرار رکھی بلکہ اکثر و بیشتر مزاحمت سے بھی کام لیا اس کی یہ مزاحمت ریاست لسبیلہ تک پھیلی ہوئی تھی انگریز مورخین نے سنگر کو برفت قرار دیا ہے لیکن سنگر نے ہمیشہ بلوچ اقدار پر فخر کیا جھالاوان کے گزیٹر ہیں انگریزوں نے لکھا ہے کہ دراصل ساجدی اور سنگر ایک قبیلہ ہے ان میں بے شمار قربت اور مماثلت ہے۔
ڈاکٹر صاحب قبائلی عظمت کا کھوج لگانے کی کبھی کوشش نہیں کرتے تھے اور نہ ہی میر کنراور اپنے آباؤاجداد کے کارنامے بیان کرتے تھے۔
اگرچہ میر دوست محمد نے 1970ء کا الیکشن نیپ کے ٹکٹ پر لڑا تھا بعد ازاں بھٹو کے دور میں غداری کے الزام میں وہ نااہل قرار دیئے گئے جس کے بعد ضمنی انتخابات میں واجہ قادر بخش بلوچ کامیاب قرار پائے تھے وہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی بنے تھے غرض کہ وقت اور حالات نے ڈاکٹر صاحب کو ایک اور رخ پر جانے پر مجبور کیا وہ تاریخ کے ایک نازک موقع پر حالات کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے کے روادار بن گئے تھے اگرچہ انہوں نے زندگی کے آخری ایام تک پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھی اس کے باوجود انہوں نے اپنے اندر بلوچ اقدار پر کوئی آنچ نہیں آنے دی لندن میں مقیم قیادت کے طرز عمل نااتفاقی اپنی الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی شناخت رکھنے پر وہ دل افسردہ تھے وہ بلوچ کو ایک الگ کینوس پر دیکھنا چاہتے تھے اور ایک جدا حکمت عملی اور من جملہ بنیاد پر اس کی تحریک کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے تھے ڈاکٹر صاحب کے ایک آپریشن کے بعد ان کی شخصیت پر بہت اثرا پڑا لیکن وہ ہر وقت دوستوں کو کمپنی دیتے تھے اور اپنی ملکوتی مسکراہٹ سے اپنے وجود کا احساس دلاتے تھے۔
ڈاکٹر حیدر بلوچ کی اللہ مغفرت کرے وہ بلوچ قوم کی اس آخری نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے سیاسی و ذاتی اختلافات کو ہمیشہ بالائے طاق رکھا اور اپنی سیاست اور سیادت کو ذاتی تعلقات سے جدا رکھا۔
ڈاکٹر مالک ہمیشہ مجھ سے گلہ کرتے تھے کہ ہر الیکشن سے پہلے آپ لندن جا کر ڈاکٹر صاحب پر زور دیتے ہیں کہ وہ میرے خلاف آ کر الیکشن لڑیں وہ خود تو کامیاب نہیں ہوتے لیکن میرے ووٹ کاٹ کر میری ناکامی کا سبب پیدا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حیدر کبھی ایسی باتوں کا برا نہیں مناتے تھے اور نہ ہی ایسی باتیں دل میں رکھتے تھے ان کی موت سے اگرچہ کوئی سیاسی خلاء پیدا نہیں ہوگا لیکن خلا ہماری زندگیوں میں ضرور پیدا ہوا ہے۔
ہم ان کی محبت شفقت اور اپنا پن کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے البتہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کیچ کی تاریخی سرزمین اپنے ایک بڑے فرزند سے محروم ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ :ڈیلی انتخاب ڈاٹ پی کے

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author