گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساڑھے سات سو سال سے دریائے سندھ کے کنارے آباد ڈیرہ اسماعیل خان کی تہزیب و ثقافت ایک خوبصورت منفرد انداز میں پروان چڑھتی رہی۔ یہاں کی زبان ۔لباس ۔نغمے ۔رقص ایک رِدم rythem
سے ہم آہنگ ہیں ۔یہاں کی محبت وفا ۔جفا ۔حُسن ۔خوشبو اور مہک ایک ہیروں کی لڑی سے جڑی ہے۔ یہاں چاند کی چاندنی محبت بھرے دلوں میں موتیا کے پھول اگاتی ہے ۔یہاں سورج کی نرم گداز کرنیں گلاب کھلا دیتی ہیں۔ یہاں سندھ دریا کے ملاح پریوں کے گیت گاتے ہیں۔ یہاں کے کھانوں میں کوہ سلیمان کے
صاف و شفاف چشموں اور دریاے سندھ کی اٹھکیلیاں کھاتی لہروں کی مٹھاس ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا آئینہ ۔۔۔
ملک کے نامور فنکاروں کے ساتھ ہمارا رویہ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین نے بہت نامور اور ممتاز ادیب ۔ شاعر ۔صحافی ۔دانشور اور فنکار پیدا کیے لیکن یہاں پر کوئی تنظیم اور بلڈنگ ایسی نہیں جہاں وہ جا کر اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔دامان آرٹس کونسل رجسٹرڈ معطل پڑی ہے اور اس کا دفتر بند ہے۔ فنکار پہلے ٹاون ہال میں ڈرامے ۔مشاعرے۔موسیقی کے پروگرام کرتے تھے وہاں بھی میوزیم اور وومن پارک بن گیا ۔اب ادیبوں فنکاروں کی نظریں نئے تعمیر ہونے والے کیمونٹی ہال پر مرکوز ہیں جووفاقی وزیر علی امین خان گنڈہ پور کی کوششوں سے حقنواز پارک میں بن رہا ہے لیکن وہاں بھی کام بند پڑا ہے۔ آج ابوالمعظم ترابی اور میں صدارتی ایوارڈ یافتہ سنگر استاد غلام عباس گل ڈیروی کے گھر گیے تو پتہ چلا وہ بھی بے روزگاری کا شکار ہیں اور مشکلات کے باوجود ساز اور آواز کو سنبھال رکھا ہے ۔بیٹے کو کلاس فور کی ملازمت تک نہیں مل سکی۔
میں سوچتا ہوں ہماری حکومت اور عوام کی بے قدری کی وجہ سے ڈیرہ پھلاں دا سہرا کا فن مِٹ رہا ہے ۔اگر اتنے بڑے فنکاروں کی قدر نہیں ہو گی تو ڈیرہ کا فنکار تاریخ کی کتابوں میں ملے گا۔آج ہم نےغلام عباس گل ڈیروی سے فرمائش کر کے یہ نغمہ سنا تو پتہ چلا یہ فنکار دل سے ہمیں پکار رہا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ