دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب نے جب مڑ کر دیکھا||رؤف کلاسرا

اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا ۔ کیا خان صاحب نے مغرب سے یہی سیکھا ہے کہ کوئی پارٹی یا حکومت پر تنقید کرے یا آپ کی خوشامد سے انکاری ہو جائے تو اسے عبرتناک مثال بنا دو‘ جیسے نور عالم کو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ٹی آئی کے ایم این اے نور عالم کو قومی اسمبلی میں حکومت مخالف تقریر کرنے پر فوری طور پر سزا دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ وہ اکثر مہنگائی اور کرپشن پر اپنی ہی حکومت پر برس پڑتے تھے اورنہ صرف پارلیمانی پارٹی اجلاسوں میں کھلے عام تنقید کرتے بلکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بھی کھل کر حکومت اور بیوروکریسی کے لتے لیتے تھے؛چنانچہ ایک شوکاز جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت مخالف تقریر کیوں کی۔ اسی پر بس نہیں کی‘ انہیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے نکالنے کا فیصلہ بھی ہوا ہے جہاں وہ خاصے گرجتے برستے تھے اور حکومت ان کی وجہ سے پریشان تھی۔
جب میں نور عالم کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے نکالنے کا نوٹیفکیشن پڑھ رہا تھا تو مجھے برسوں پہلے پرویز مشرف کے دور کی ایک دوپہر یاد آئی جب میں ایک انگریزی اخبار میں رپورٹر تھا۔انہی دنوں مشہورعالمی دانشور نوم چومسکی پاکستان آئے ہوئے تھے اور ان کا کنونشن سینٹر میں لیکچر رکھا گیا تھا۔ پورے اسلام آباد میں جوش و جذبہ تھا کہ چومسکی کا لیکچر سنیں گے۔ کارڈ تک لینا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ جب میں کنونشن سینٹر پہنچا تو سینکڑوں لوگ پہنچے ہوئے تھے‘ ان میں عمران خان اور جمائمہ خان بھی تھے۔اس دوران مجھے نوم چومسکی سے مختصر انٹرویو کا موقع مل گیا۔میں نے کہا: سر کیا خیال ہے اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی آپ کو سننے کیوں آئے ہوئے ہیں‘ بلکہ سننے سے زیادہ آپ کو دیکھنے آئے ہیں؟وہ تھوڑے حیران ہوئے کہ بھلا یہ کیا احمقانہ سوال ہے۔ خیر بولے کہ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں نے کہا: آپ پاکستانیوں کے لیے ایک عجوبہ ہیں‘ ہمارے ہاں یہ تصور کرنا ہی مشکل ہے کہ آپ امریکی ہو کر بھی امریکی پالیسیوں کے خلاف مسلسل لکھتے اور بولتے رہتے ہیں اور وہاں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کوئی سیکرٹ ایجنسی آپ کو اُٹھا کر نہیں لے جاتی۔ امریکی حکومت آپ کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بناتی کہ آپ امریکی مفادات کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں۔ آپ کو کوئی وہاں غدار نہیں کہتا نہ آپ پر اتنا کچھ لکھنے اور بولنے کے باوجود ملک دشمنی کے الزامات لگتے ہیں۔ میں نے کہا: ایک اور وجہ بھی ہے جو اس ہجوم کی سمجھ سے باہر ہے کہ آپ یہودی ہوتے ہوئے امریکہ کی اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بولتے ہیں۔ ہمارے پاکستانی یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ ایک بندہ یہودی ہو کر بھی یہودیوں کے خلاف لکھتا اور بولتا ہے اور اسے کوئی کچھ نہیں کہتا۔ ہمارے ہاں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے‘ اس لیے آپ ان کے نزدیک دانشور سے زیادہ ایک سپرمین ہیں۔ ایک غیرمعمولی انسان جسے دیکھنے کیلئے یہ جمع ہوئے ہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ سن کر نوم چومسکی مسکرا دیے تھے۔
بڑے عرصے بعد میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بعض لوگ ملکوں اور معاشروں کیلئے Necessary evilکا درجہ رکھتے ہیں۔انہیں معاشرے کا ضمیر تک کہا جاتا ہے کہ ان پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ مشہور ادیب اور فلاسفر سارتر نے جب الجزائر کے مسلمانوں کی آزادی کیلئے آواز اٹھائی تو اسے بھی غدار قرار دیا گیا۔ اس وقت فرانسیسی فوجیں الجزائر میں لڑ رہی تھیں۔ سارتر کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے کہ اسے سزا دیں۔ بات فرانس کے صدر ڈیگال تک پہنچی کہ سارتر کو غداری پر سزا دیں کہ یہ الجزائر کے جنگجوئوں کی حمایت کررہا ہے۔ ڈیگال نے تاریخی جملہ کہا تھا:سارتر فرانس کا ضمیر ہے‘ سارتر تو فرانس ہے میں بھلا فرانس کو کیسے ٹرائل کرسکتا ہوں۔ سارتر بھی چومسکی کی طرح فرانسیسی معاشرے کیلئے Necessary evilکا درجہ رکھتا تھا۔ مان لیا کہ نہ ہم امریکہ ہیں نہ یہاں چومسکی ہے نہ سارتر اور ڈیگال لیکن کیا خواب دیکھنے پر پابندی ہے؟ خان صاحب کو چومسکی اچھا لگتا تھا لیکن وہ امریکن شہری ہے‘ کوئی پاکستانی وہ رول ادا کرنے کی کوشش مت کرے۔خان صاحب بات بات پر کہتے ہیں کہ وہ مغرب کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ امریکی پارلیمنٹ میں ایک اہم بل پر ووٹنگ ہونی تھی‘اوبامہ کے مقابلے پر صدارتی الیکشن لڑنے والے جان مکین کینسر کی وجہ سے آخری سٹیج پر تھے۔ڈاکٹروں نے منع کیا سفر مت کریں۔ ضد کی اور واشنگٹن اپنا ووٹ ڈالنے آئے‘اور پتہ ہے کس کو ووٹ ڈالا؟ اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالا ۔ کیا خان صاحب نے مغرب سے یہی سیکھا ہے کہ کوئی پارٹی یا حکومت پر تنقید کرے یا آپ کی خوشامد سے انکاری ہو جائے تو اسے عبرتناک مثال بنا دو‘ جیسے نور عالم کو بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟
اگر پارلیمنٹ میں کوئی ممبر کھڑے ہو کر اپنی حکومت یا وزیروں پر تنقید ہی نہیں کرسکتا تو کیا وہ اندھوں بہروں کی طرح محض اس ہاؤس سے ہر ماہ تنخواہ اور الاؤنس لینے اور وزیراعظم یا وزیروں کی ہر بات پر واہ واہ کرنے آتا ہے؟کیا وزیراعظم کو پڑنے والے 176 ووٹوں میں سے کسی ایک ممبر کو بھی یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کھڑے ہو کر ان کی پالیسیوں یا فیصلوں پر تنقید کر سکے؟ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ آپ نہ پارٹی کے اندر بول سکتے ہیں نہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہ ہی میڈیا پر۔
نور عالم کا قصور یہ تھا کہ وہ اسمبلی اور پارٹی اجلاسوں اور پی اے سی میں کھل کر سب کی کلاس لے رہے تھے‘ انہیں سزا کے طور پر پی اے سی سے بھی ہٹا دیا گیا۔ خان صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح نور عالم کے سب راستے روک کر وہ انہیں اپنے آگے جھکا لیں گے۔ مجھے یاد آیا بینظیر بھٹو نے بھی وزیراعظم بن کر نواز شریف کو فوکس کر لیا تھا اور ان کے کاروبار کے پیچھے پڑ گئی تھیں۔ وہ اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں جب تک انہوں نے نواز شریف کو وزیراعظم نہ بنوا لیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے اپنی باری پر عمران خان کو ٹارگٹ کیا۔ ان کے ہسپتال کے اشتہارات تک ٹی وی پر بین کر دیے کہ کہیں عمران خان ہسپتال بنا کر وزیراعظم نہ بن جائیں۔پھر کیا ہوا؟ عمران خان دب گئے ؟ ختم ہوگئے؟
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو خوشامدیوں نے بری طرح گھیر لیا ہے۔ روز آپ ٹوئٹر کھولیں تو ہر دوسرا وزیر خان صاحب کی خوشامد کررہا ہوتا ہے۔ سارا دن وزیروں مشیروں میں خوشامد کا مقابلہ چلتا ہے۔ شام کو سب وزیر ٹی وی شو میں عمران خان کی برکتیں قوم کو گنواتے ہیں اور خوشامد کی حد کر دیتے ہیں۔ حیران ہوتا ہوں ایک نارمل بندہ صبح شام اتنی خوشامد کیسے ہضم کرسکتا ہے یا سن یا پڑھ سکتا ہے؟ خان صاحب کو خوشامدیوں میں گھرا دیکھ کر مجھے شیکسپیئر کا ”کنگ لیئر‘‘ یاد آتا ہے جس نے اپنی ایک بیٹی کو محض اس لیے جلاوطن کر دیا تھا کہ اس نے باپ کی فرمائش پر اسے یہ بتانے سے انکار کر دیا تھا کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتی ہے۔ بیٹی کا کہنا تھا: مجھے اپنے باپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ان سے کتنی محبت ہے جبکہ دو بڑی بیٹیوں نے باپ کی خوشامد کی انتہا کر دی۔ بادشاہ لیئر نے پوری سلطنت ان دو بیٹیوں کو دے دی‘ چھوٹی کو کچھ نہ دیا بلکہ گستاخ قرار دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد ان بیٹیوں نے اپنے بوڑھے باپ کو محل سے نکال دیا۔ اکیلا بادشاہ جنگل کو نکل گیا اور اس کے ساتھ صرف ایک وفادار Fool تھا جو ان مشکل لمحات میں بادشاہ کو یاد دلاتا رہتا تھا کہ کیسے اسے خوشامد اور خوشامدیوں نے گھیر لیا تھا۔ آج اگر وہ جنگل میں دھکے کھا رہا تھا تو اسکی وجہ اسکا خوشامد پسند ہونا تھا۔
خان صاحب کو چاہئے تھا کہ پارٹی کے اندر کچھ Necessary evil رہنے دیتے جو انہیں یاد دلاتے رہیں کہ وہ بھی فانی انسان ہیں جو غلطیاں کرسکتا ہے۔کنگ لیئر خوش قسمت تھا کہ اسے ایکFool مل گیا جو بادشاہ کے منہ پر ہنستے ہنستے سچ کہہ دیتا تھا‘ دربار کے ”سیانے‘‘تو خوشامد ی تھے۔ خان صاحب کے اردگرد ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کنگ لیئر کے Foolکا کردار ادا کرسکے۔
بادشاہ سلامت خوشامد اور خوشامدیوں سے بچیں ورنہ کنگ لیئر کی طرح جنگلوں میں دھکے کھاتے پھریں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author