گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آج ایک سو بارہ سال پرانی 1910 میں لکھی ایک کتاب پڑھ رہا تھا جو در اصل ایک انگریز آرمی افسر اور اس کی نو بیاہاتا برطانیہ سے آئ بیوی کی سفری داستان ہے۔کتاب کا نام ۔۔صاحب لوگ۔۔۔۔ ہے مجھے اس کتاب کے پڑھنے میں اسلیے دلچسپی پیدا ہوئ کہ یہ انگریز فوجی کمانڈنگ افسر جرنل ڈک نارمن ڈیرہ اسماعیل خان میں تعینات تھا اور اپنی انگریز دلھن کو لمبا سفر طے کر کے یہاں لے آیا تھا۔ خیر میری آنکھیں اس وقت کھلی کی کھلی رہ گئیں جب اس جرنل نے ایک موقع پر یہ کہا۔۔
انڈیا میں جو تعلیم یافتہ لوگ آذادی کے نعرے لگا رہے ہیں یاد رکھیں اگر ہم انگریز لوگ انڈیا خالی کر دیں تو یہ تعلیم یافتہ لوگ ہرگز حکمران نہیں بنیں گے بلکہ ایسے لڑاکا لوگ حکمران بنیں گے جیسے رنجیت سنگھ تھا اور انکی تعلیم بے وقعت ہو جاۓ گی اور یہ لوگ سو سال پیچھے چلے جائینگے۔
(یاد رہے سکھوں کی حکومت ڈیرہ پر 1836 سے 1848 تک رہی تھی اور رنجیت سنگھ تو 1839ء میں مر چکا تھا)۔
فیس بک کا صحیح استعمال ۔۔
بعض لوگ اس قدر تنہائ کا شکار ہوتے ہیں کہ انکے سارے معاملات ۔رونا دھونا ۔غم ۔خوشی۔ہانڈی ۔فیشن صرف face book پر چلتے ہیں۔۔
یار فیس بک ایک گاٶں نہیں جس میں ہر بندہ آپکی خوشی غمی میں شریک ہو یہ ایک سمندر اور کائنات ہے۔ ہمیشہ فیس بک پر کچھ اپلوڈ کرنے سے پہلے آپ سوچیں اس سے میرے دوستوں کے علم میں کتنا اضافہ ہو گا۔ ذاتی معاملات کے لیے اپنے گاٶں اور رشتہ داروں کا گروپ بنالیں اور اپنے غم خوشی دعوتیں ان سے شئیر کریں۔
مگرہمارے دوستوں کا حال احمد فراز جیسا ہے ؎
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی۔۔
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ