مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم کی بیٹی نصیبو لال||محمد حنیف

عمران خان رن اپ کے لیے مڑتا ہے، سرخ بال کو اپنی سفید پینٹ پر رگڑتا ہے، مڑتا ہے، رن اپ شروع کرتا ہے، پر وکٹوں کے پیچھے شیخ رشید کو دیکھتا ہے تو تھوڑا تھک جاتا ہے، چیتے کی سی چھلانگ بھول جاتا ہے امپائر کی طرف دیکھتا ہے اور امپائر کہتے ہیں کہ آپ نے ہی تو نیوٹرل امپائر کا آئیڈیا دنیا کو دیا تھا۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مملکتِ خداداد میں 12 موسم ہیں لیکن ایک تیرہواں موسم بھی ہے جو ہر سال کوک سٹوڈیو کا نیا سیزن کہلاتا ہے۔

چینی میں گیس ملا کر مشروب تیار کرنے اور ہماری زمین سے ہمارا پانی نکال کر پلاسٹک کی بوتلوں میں بند کر کے ہمیں بیچنے والی بین الاقوامی کمپنی اپنے بےبہا منافع کا ایک قلیل حصہ خرچ کر کے موسیقی کا پروگرام بناتی ہے جس پر پورا سال قوم سر دھنتی ہے۔

بیرونِ ملک پاکستانی جو ہر وقت اپنے ملک کی امیج کی فکر میں مرے جاتے ہیں، وہ بھی سینہ ٹھونک کر دنیا کو فخر سے بتاتے ہیں کہ پاکستانی کوک سٹوڈیو ہندوستانی کوک سٹوڈیو سے کہیں آگے ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی اپنی آواز اس کورس میں شامل کرتے ہوئے اسے پاکستان کا ثقافتی ورثہ قرار دینا شروع کر دیا ہے جیسے اس موسیقی کی جڑیں ہمارے صدیوں پرانے سُروں میں نہیں ہیں بلکہ یہ شاہ محمود قریشی اور وزارتِ خارجہ کے بابوؤں کے ریاض کا نتیجہ ہے۔

کوک سٹوڈیو کے نئے موسم کا آغاز عابدہ پروین اور نصیبو لال کے ایک دو گانے سے ہوا اور پوری قوم نصیبو لال پر فدا ہو گئی۔ اس کی گائیکی پر نہیں، اس کے سُروں پر نہیں، بلکہ اس کے ادب آداب پر۔ جس طرح اس نے عابدہ پروین کے گھٹنے چھوئے، جیسے اس نے ہاتھ باندھ کر گانے کی اجازت مانگی تو پوری قوم عش عش کر اٹھی۔

عابدہ پروین تو ویسے ہی پاکستان کے ملنگوں کی ملکہ ہیں۔ ان سے تو سب عاجزی کی ہی توقع رکھتے ہیں لیکن نصیبو لال کے انداز دیکھ کر سب کہہ اٹھے کہ یہ ہے ہمارا کلچر، یہ ہیں ہماری اصلی روایات، بڑوں کی عزت، بزرگوں کا احترام وغیرہ وغیرہ۔

نصیبو لال کو ہماری تہذیبی شناخت قرار دینے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سوشل میڈیا پر دن کا آغاز قرآنی آیات سے کرتے ہیں اور عصر تک اپنے ناپسندیدگان کی ماؤں کو گندی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔

ہماری پڑھی لکھی، شائستہ، اور تہذیب کی قدردان قوم نے نصیبو لال کو اس سے پہلے پی ایس ایل کے ترانے میں دیکھا تھا اور اس کے انگریزی تلفظ کا مذاق اڑایا تھا۔

اس سے پہلے کبھی کبھی اُن کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ کوئی نصیبو لال ہے جو پنجابی میں گندے گانے گاتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ بھی کہا گیا کہ کیا یہ گانے کوئی ماں بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر سن سکتا ہے؟ (یہ کہنے سے پہلے کبھی ماں بہنوں سے نہیں پوچھا جاتا۔)

یہ بھی پڑھیے

کسی طرح کا فن عموماً اور گلوکاری خصوصاً ایسا شعبہ ہے کہ ساری عمر محنت کرتے رہو تو ہو سکتا ہے پھر بھی پھل نہ ملے۔ نصیبو لال نے بھی بچپن سے محنت کی۔ میلوں میں، بسوں میں گڑوی بجا کر روزی کمائی۔

جب قسمت نے یاوری کی تو بھی نصیب کا ملا لیکن کم کم۔ ایک دن میں چھ چھ گانے ریکارڈ کروائے۔ ایک پکھی واس گھرانے سے تعلق ہوتے ہوئے اپنے خاندان کے لیے پکا گھر بنوایا، اپنے بچے پالے اور پاکستانیوں کے طعنے سنے کہ نصیبو کون، وہ گندے گانے والی؟

دس سال پہلے پاکستان کا نظامِ عدل حرکت میں آیا اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے نصیبو لال اور اُن کی کم معروف لیکن انتہائی ٹیلنٹڈ بہن نوراں لال کے 41 گانوں کو فحش قرار دے کر پابندی لگا دی۔

جج صاحب کو پتا نہیں اپنے موسیقی کے خلاف منائے گئے ہفتہ صفائی میں نصیبو لال کے ہزاروں گانوں میں سے صرف 41 گانے کیسے فحش لگے اور اُنھوں نے یہ سارے گانے پتا نہیں گھر میں ماں بہنوں سے چھپ کر سنے یا اپنے عدالتی چیمبر میں۔

نصیبو لال ایک مزدور گائیک ہے اور پی ایس ایل اور کوک سٹوڈیو سے پہلے اس کے سامعین کا تعلق بھی اکثر مزدور اور مرد طبقے سے تھا یا اُن کے گانے اُن بہنوں کے لیے تھے جو سٹیج پر یا نجی محفلوں میں رقص کر کے اپنی روزی کماتی ہیں۔

نصیبو لال نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے آپ کو گھر میں رکھا ہوا وہ طوطا کہا تھا جس سے چاہو تو کلامِ پاک پڑھوا لو، چاہو تو گالیاں سن لو۔

نصیبو لال

،تصویر کا ذریعہPAKISTAN SUPER LEAGUE

اُنھوں نے اسی انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ چلو نصیبو لال تو بدنام ہوئی لیکن ان فلم پروڈیوسروں کی، ان سینسر والوں کی کوئی بدنامی نہیں ہوئی جو یہ فلمیں بناتے رہے اور پاس کرتے رہے۔ اگر میں نے ہزار گندے گانے گائے ہیں تو چار اچھے بھی گائے ہوں گے، اُنھیں بھی یاد کریں۔

نصیبو لال نے جتنے بھی خوبصورت اور گندے گیت گائے ہیں ان میں سے تقریباً 90 فیصد الطاف باجوہ نامی ایک شاعر نے لکھے ہیں۔

ان سے آج تک کسی نے نہیں کہا کہ اپنا نام دیکھو اور اپنے کام دیکھو۔

نصیبو لال کے زیادہ تر گانوں کی موسیقی ایک بزرگ موسیقار طافو صاحب نے دی۔ ان سے بھی کسی نے نہیں پوچھا کہ ایسی کیا مجبوری آن پڑی کہ دنیا کے سارے ساز بجا لیتے ہیں تو نصیبو لال سے یہ کیا کروا رہے ہو۔

آخر کار قوم نے اپنے مزدور گائیک کو عزت دی جو اس کا حق تھا۔

اب وہ نوجوان بچے اور بچیاں جن کو دوسری کلاس میں گٹار، پانچویں میں پیانو کے استاد کی شاگردی میں دے دیا جاتا ہے، وہ بھی نصیبو لال سے کچھ تہذیب سیکھیں اور بزرگ یہ سوچیں کہ جو آپ اپنی ماؤں بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں سن سکتے یا دیکھ سکتے، ان کے ساتھ کسی اور کی ماں اور بہن کا رزق جڑا ہوا ہوتا ہے۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: