نومبر 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بقا کے مورچے||فضیل اشرف قیصرانی

نوٹ: تحریر کے ساتھ مُنسلک ویڈیو شاید کچھ احباب کی دل آزاری کا باعث بھی ہو مگر یہ اُس قوم کی ویڈیو ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور بقا مانگنے والوں کو انکے اعمال سے نہیں انکے حالات سے پرکھا جاتا ہے۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقوام اپنی بقا کے مورچوں کو لے کر ہمیشہ ایک مخصوص طرزِ عمل کے تحت اپنی بقا کے مورچے پیدا کیا کرتی ہیں۔بقا کے مورچے اگر پہلے سے موجود ہوں تو پھر اقوام اُن بقا کے مورچوں کی بقا کی خاطر سنجیدہ لائحہ عمل بنا کر ان مورچوں کو مزید مضبوطی سے تھام لیا کرتی ہیں۔جی-ایم سید سے منسوب ہے کہ جب ان سے سندھی زبان، سندھی کلچر ،سندھ کی حدود اور ان سب پر جی۔ایم سید کے موقف پر سوال ہوا تو جی۔ایم سید کا جواب تھا کہ، “ موجودہ طرز سیاست و حکومت میں مجھے سندھی قوم کی بقا کا سواۓ اسکا کوئ مورچہ نظر نہیں آتا کہ سندھی قوم کو اپنے کلچر سے اس طرح جوڑ دوں کہ سندھی قوم تمام تر باتیں بوجوہ اپنی بردباری اور رواداری کے برداشت کر جاۓ سواۓ سندھ کی تقسیم اور سندھی کلچر کے”۔۔۔
کُچھ ایسا ہی سبق ہمیں فینن کی تحاریر میں بھی ملتا ہے جہاں وہ مقامی اور نو آبادکار کے مابین اس بات پر بحث کرتا ہے کہ کیسے نو آبادکار اپنی تہذیب کو مقامی کے سامنے اس انداز کے پیش کرتا ہے کہ مقامی خود اپنی تہذیب کو غیر مہذب جاننے لگتا ہے۔ہمارے دورِ غلامی میں بھی کچھ ایسا ہی نظریہ بنام “ سفید آدمی کا بوجھ” نوآبادکار نے مقامیوں کو بیچا کہ مقامی غیر مہذب، اجڈ، ڈاکو اور لُٹیرے ہیں جبکہ ہم تہذیب یافتہ ۔ سو یہ ہماری ( نوآبادکاروں) کی تہذیبی ذمہ داریوں میں ہے کہ ہم ہندوستانی جنگلیوں کو تہذیب سے آشنا کر دیں۔یہ نظریہ خوب بکا اور ہم آج تک کہیں نہ کہیں اس کےاثرات اپنی زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔
اسی بات کو مزید جاننا چاہیں تو نظر دوڑائیے کہ جہاں جہاں مقامی تہذیبی و شناختی بحران کے نسبتاً زیادہ شکار ہیں وہاں وہاں نو آبادکاروں کا نفوز نسبتاً زیادہ تھا۔سو پاکستان بنتے ساتھ ہی تہذیبی بحران اور غلامی کے مارے ہمارے بزرگوں کےسامنے جب تہذیبی و شناختی سوال کھڑا ہوا تو ہم بنا کچھ جانے ایک اور تہذیبی و شناختی بحران میں جا پھنسے۔
فیس بکی الفاظ کا سہارا لیا جاۓ تو ہم واقعتاً ایک ایسی قوم ہیں جو زندگی امریکہ اور موت مدینہ میں چاہتی ہے، جسکا دل فلسطینی مسلمانوں کے لیے دھڑکتا ہے مگر افغان مسلمانوں کے لیے نہیں، جو جہاد کو افضل جانتی ہے مگر تب، جب مجاہد کسی اور کے بچے ہوں، جو مذہبی فریضہ، نکاح رسماً کرتی ہے جبکہ طلاق کے رسماً خلاف ہے اور جو سود کو اللہ سے اعلان جنگ مانتی ہے مگر تمام تر کاروبار سودی بینکوں کے تحت کرتی ہے۔
اس ضمن میں ہم لاکھوں نہ سہی مگر ہزاروں کنفیوژنز کوجھ سکتے ہیں جس سے ہماری قوم گزر رہی ہے یا گزاری جا رہی ہے۔ بد قسمتی سے ہر گزرتا دن ان کنفیوژنز کی فہرست میں اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے اور یہاں یہ یاد رہے کہ ہر کنفیوژن کی پیدائش اپنی بنیاد میں تہذیبی و شناختی بحران میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان باوجود اسکے کہ گزشتہ نصف صدی سےسیاسی و معاشی بحرانوں کا شکار ہے مگر وہ ہماری طرح تہذیبی و شناختی بحران کا شکار نہیں۔ریاست کا “مطالعہ افغانستان “ وہاں بھی بچوں کے دماغ میں اُنڈیلا گیا، وہاں بھی اسلامی کلچر کے نام پر عرب کلچر کو فروغ دینے کی ریاستی کوشش بار بار ہوئ، وہاں بھی ازبک، تاجک، ہزارہ اور پشتون کی بحث کو افغان بحث میں تبدیل کرنے کی کاوشیں ہوئیں، تعلیم، خواتین، موسیقی، کلچر، زبان، حدود، “نظریہ افغانستان “کا منجن وہاں بھی بار بار بیچا گیا، ایک فرق مگر صرف ایک فرق شاید ہمارے ہمسایہ افغانوں کو ہم سے ممتاز کر گیا کہ وہ باوجود اپنے سیاسی و معاشی بحران کے تہذیبی و شناختی بحران کا شکار ویسے نہیں ہوۓ، جیسے ہم۔۔۔
شاید ان میں سے ایک وجہ “ افغان کلتور” یعنی افغان ثقافت و تہذیب رہی۔افغان اپنی سیاسی و معاشی بحرانی تاریخ میں اپنی بقا کا مورچہ “ افغان کلتور” قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور اب ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانوں کی اپنے بقائ مورچے کے ساتھ جُڑت مزید مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔افغانوں کی اپنی تہذیب کے ساتھ اس موجب جُڑت کہ وہ بطور قوم اُنکی بقا کا مورچہ ہے، ہمارے لیے کئ سبق رکھتا ہے۔لسبیلہ یونیورسٹی میں ہوئ “ دو چاپی” کی ویڈیو ہمارے ہاں اس ضمن میں چند اقدام میں سے ایک ہے جبکہ آج “دخترانِ مزار” کے بینر اُٹھاے چند افغان بچیوں کی ویڈیو نظر سے گزری تو معلوم ہوا کہ واقعتاً “کلتور” وہ ظالم شۓ ہے کہ چھینا جاۓ تو آسان حالات میں بھی زندگی فنا اور اگر سینے سے لگا لیا جاۓ تو مشکل حالات میں بھی زندگی بقا۔۔۔
نوٹ: تحریر کے ساتھ مُنسلک ویڈیو شاید کچھ احباب کی دل آزاری کا باعث بھی ہو مگر یہ اُس قوم کی ویڈیو ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور بقا مانگنے والوں کو انکے اعمال سے نہیں انکے حالات سے پرکھا جاتا ہے۔

About The Author