رفعت عباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناٹک جاری تھا۔
سارنگ: بغداد میں حسین بن منصور حلاج کو مار دیا گیا کہ اس کی” میں” ایک سچ کے ساتھ مل کر مضبوط ہو رہی تھی لیکن اگر کوئ دیکھے تو ” میں ” اپنے اصل میں مٹ رہی تھی۔ منصور اپنے وجود کے سب سے زیریں مقام پر تھا۔ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ اپنی آزادی سے محروم ہو رہا تھا۔ منصور کی” میں ” سچ میں بدلتی یا سچ منصور میں ڈھلتا دونوں صورتوں میں "میں ” کا باقی بچنا محال تھا ۔
رتڑی: منصور کو سنگسار کرنے یا دار پر کھینچنے کی ضرورت نہ تھی کہ وہ ایک بڑے وجود کی کشش میں اپنی "میں ” سے دستبردار ہو رہا تھا ۔
نسرا: یہ بڑا وجود کیا ہے؟
سارنگ: یہ عظیم اور ان دیکھے سراب اور کل کا ہیولا ہے۔یہی وجود ” میں ” کی جدائ ہے۔
نسرا: "میں ” کی جدائ؟
سارنگ: "میں ” کی جدائ فرد کی جدائ ہے! اس حلول میں منصور ایک فرد سے ماورا وحدت میں ڈھل رہا تھا۔ یہ منصور کی "میں ” کی رخصتی تھی۔ اس کل میں منصور "میں ” سے خالی ایک رعایا تھا اور حاکم رعایا کے ہجوم سے نہیں ” میں ” کے جلوس سے ڈرتا تھا۔
وادھا: یہی بات ہے کہ کوئ حملہ آور ہو یا حاکم ، کوئ دھرم ہو یا عقیدہ سب سے پہلا نشانہ عام لوگوں کی ” میں”ہوتی ہے۔ "میں” عام شخص ہے۔ یہی "میں ” لوگوں کی آنکھ ، منہ، ہاتھ ، پاوں، زبان اور شعور ہے، یہی "میں ” گزرا ہوا اور آنے والا زمانہ ہے۔
سنکی: "میں آج کا دن ہے۔
رتڑی : یہی ” میں ” ہی تن ہے، یہی "میں ” لوگوں کا چہرہ ہے جو سرخی لگاتا ہے۔ یہی بدن ہے جو جدائیوں کے درمیانی وقفے میں ملاپ کرتا ہے۔
نسرا: ” میں” پر ایک مشکل گھڑی ہے!
سارنگ: ” میں” ہی انسان کا حسن اور اس کی حکمت ہے۔ہر حملہ آور جانتا ہے کہ ” میں ” کا محاصرہ کرنا پڑتا ہے۔ اس "میں ” کے لیے بندی خانہ ہے، قتل گاہ ہے، جلا وطنی ہے، کسی بڑے جبر میں اس ” میں” کو گھوڑے اور ہاتھی کی مانند سدھایا جاتا ہے کہ لگام اور آنکس کو سہہ سکے اور پیٹھ پر بیٹھنے دے۔
ہر ریاست اور اس کے کارندے "میں ” کو مارنے کیلئے چبوترے بناتے اور لاٹیں نصب کرتے ہیں کہ یہی ان کی فتح کا نشان ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ "میں ” ایک جثہ ہے جسے بھوک اور پیاس لگتی ہے ، جو درد محسوس کرتا ہے، جس کا لہو بہتا ہے اور گردن ماری جا سکتی یے۔ یہ جثے کی مجبوری ہی حملہ آور یا حاکم کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
نسرا: ( تاویل سانس لیتی ہے) ” میں ” بھینٹ چڑھ جاتی ہے ۔
سارنگ: ” میں ” کے مقابل ان لاٹوں کی تحریر کسی ایسے سراب سے گزاری جاتی ہے کہ عام شخص اس گردش میں اپنی ” میں ” کی بھینٹ چڑھانے نکلتا ہے اور اسے پریم کہتا ہے۔
نسرا: ہاں پریم!
سارنگ: "میں” اپنی”میں” کے تیاگ یا دوسرے کی ” میں” کو بے توقیر کرنے سے نہیں بلکہ دوسرے کی ” میں” کے احترام میں دمکتی ہے۔ دوسرے کی ” میں” جو ” تو” ہے "میں ” کو راہ دیتی ہے اور کسی سماج کا "ہم” اور "تم” بنتی ہے۔ بس یہی ایک ڈھب ہے” میں” کے تسلسل کا۔
رتڑی: کیا ہر چیز کو ایک بڑی چٹائ میں لپیٹا جا سکتا ہے؟نہیں! یہ نیلی چڑیا، نیلی چڑیا ہے، مور ، مور ہے اور نیم کا درخت ، نیم کا درخت ہے۔ اس جہان کی پر چیز کی اپنی ذات اور اپنا مقام ہے۔
سارنگ: لونڑی شہر کے دھیان میں ودانت کی ادوئ ہو یا وحدت الوجود کی اکائ شخصی وجود کو ڈھیر میں بدلتی ہے ۔ حاکم کو ادوئ کا کوٹ یا وحدت الوجود کا قلعہ راس آتا ہے کہ اس میں آخری سچ وہ خود ہوتا ہے۔ حملہ آور کے قاعدے لوگوں کی ” میں” کو ایک مال خانے تک لاتے اور تہیں لگاتے ہیں۔ حاکم اس گودام پر ایک بڑا پھاٹک لگاتا ہے۔ دھرم اس پھاٹک پر تالا چڑھاتا ہے اور چابی گنوا دیتا ہے ۔
نسرا: اس سارے سفر میں سہاگا کون ہے؟
سارنگ: منصور حلاج ہو یا سہاگا ، دونوں پریمی ہیں لیکن اس پریم کے پیچھے عدم تکمیل کا سراب ہے۔
رتڑی: سہاگا کا پریم کیا ہے؟
سارنگ: اپنی ” میں ” کو لونڑکا پر قربان کرنا سہاگا کا پریم ہے۔ یہ لونڑی شہر کا پریم نہیں ہے۔ لونڑی شہر کا پریم اپنے وجود میں رہ کر لونڑکا کی تلاش ہے۔
صبح تک ” میں لونڑکا ہوں” کا راس رچا اور لونڑی شہر نے پتن جلی کی سمادھی کے بعد سہاگا کی "لونڑکم دید” کو بھی رد کر دیا۔
ناول
"نمک کا جیون گھر ” سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رفعت عباس دی کتاب "ایں نارنگی اندر” پڑھن کیتے کلک کرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر