وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی پارلیمانی ڈکشنری میں ایک اصطلاح ہے ’ہر میجسٹیز لائل اپوزیشن‘ یعنی ملکہ کی وفادار حزبِ اختلاف۔‘ عملاً برطانوی پارلیمان میں جس طرح دھواں دار تقاریر کی روایت ہے اور جس طرح کسی اہم قانون پر چھکے چھڑاؤ بحث اور ووٹنگ ہوتی ہے اسے دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا کہ ہر میجسٹیز لائل اپوزیشن اتنی لائل ہو کہ بیٹھنے کا کہیں تو لیٹ جائے۔
وہ حکومت کو نہ صرف ایڑیوں کے بل کھڑا رکھتی ہے بلکہ اس کی شیڈو کیبینٹ اور قیادت ہر اہم بل میں سے بال کی کھال نکال کر کئی ترامیم ڈلوانے میں بھی اکثر کامیاب رہتی ہے۔
ہم نے بھی برطانوی پارلیمانی نظام کی فوٹو سٹیٹ لے رکھی ہے۔ جس میں ایک عدد سپیکر ہوتا ہے، حزبِ اقتدار و حزب اختلاف کی بنچیں بھی ہوتی ہیں، سبجیکٹ کمیٹیاں بھی ہیں، قانون سازی بھی ہوتی ہے اور دھواں دھار بحث بھی ہوتی ہے۔
مگر برطانوی پارلیمان کی نسبت ہماری پارلیمان میں دھواں زیادہ اور بحث کم ہوتی ہے اور اسی دھوئیں داری میں ہر وہ قانون منظور ہو جاتا ہے جس کے بارے میں پارلیمانی ارکان کو اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی ’اصلی تے وڈے سٹیک ہولڈرز‘ فرداً فرداً اعتماد میں لے چکے ہوتے ہیں۔
اس کے بعد عوام کے من و رنجن کے لیے حکومتی اتحادی کسی بھی مخصوص مسودہِ قانون پر پریس کانفرنسی تحفظات ظاہر کرتے ہیں اور حکومت میں شامل ہونے کے باوجود بندر بھبکیاں بھی دیتے ہیں۔
ایک دن پہلے روٹھنا منانا ہوتا ہے اور اگلے دن وہ سب اتحادی ایوان میں حاضر ہوتے ہیں جو ایک دن پہلے کہہ رہے تھے ہم اس قانون پر آنکھ بند کر کے ووٹ نہیں دے سکتے، ہمیں حکومت میں رہنے کا کوئی شوق نہیں، ہم ضرورت پڑنے پر وزارت کو ٹھوکر مارنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
یہی منظر بند کمرے میں اکثریتی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا بھی ہوتا ہے۔ دھواں داری اور پھر خواری۔ میڈیا کا پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔اپنے لیڈر سے برملا اختلاف کرنے والوں کی واہ واہ ہو جاتی ہے۔ بند کمرے کا یہ اجلاس اتنا کھلا ہوتا ہے کہ باہر کھڑے رپورٹر اس کی رئیل ٹائم رپورٹنگ کر رہے ہوتے ہیں۔
کس رکن یا وزیر نے پارلیمانی لیڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، کون غصے میں کھڑا ہو گیا۔ کس نے میز پر ہاتھ مارا، کس کی کنپٹی لال ہو گئی، کس کے منہ سے جھاگ نکلا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ جیسی مالک کی رضا۔
یہی حال حزبِ اختلاف کا بھی ہوتا ہے۔ پارلیمان میں جانے سے ایک دو دن پہلے پارٹی سربراہ اور ان کے نمائندے بیٹھ کر باریک بینی سے مزاحمتی حکمتِ عملی تیار کرتے ہیں۔ رپورٹر پوچھتے ہیں کہ کیا کریں گے تو کوئی بھولا جوشیلا یہ بھی کہتا ہے کہ اس بل پر حکومتی شکست یقینی ہے۔
یہ وہ جوشیلے ہوتے ہیں جنھیں آخری وقت تک پتہ نہیں چلتا کہ ان کی قیادت کو راتوں رات سکرپٹ موصول ہو چکا ہے کہ کب واک آؤٹ کرنا ہے، کتنے ارکان کو علالت کے سبب ایوان میں نہیں آنا، کتنوں کو صرف غوغا کرنا ہے اور کتنوں کو تقریر فرمانی ہے۔
اور جب ماحول کی گرمی سے ایسا لگنے لگے کہ آج تو یہ بل پاس ہونا بہت مشکل ہے وہ ایسے منظور ہو جائے جیسے مداری ہیٹ سے خرگوش نکالتا ہے، جیسے مکھن میں سے بال نکلتا ہے اور حزب اختلاف ایک بار پھر کپڑے جھاڑتے ہوئے اگلے سیشن کی تیاری میں یہ کہہ کر لگ جائے کہ اب کے مار بتیسی نہ توڑ دی تو نام بدل دینا۔
اس دل پشوری کو ہم کہتے ہیں پارلیمانی سیاست۔ آپ چاہیں تو اسے ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنگ چیپمیئن شپ بھی کہہ سکتے ہیں جو کسی نہ کسی چینل پر دیکھنے والوں کا دل دہلا رہی ہوتی ہے لیکن پہلوانوں کا کچھ نہیں بگڑتا۔ بگڑنے لگے تو دھندا کیسے چلے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اس جملے کو اب بخش دیجئے ۔۔۔وسعت اللہ خان
کیا آیندہ کو پھانسی دی جا سکتی ہے ؟۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر