رانا ابرار خالد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تونسہ شریف سے ایک دوست نے فون کر کے بتایا ہے کہ 9 جنوری 2022 کو وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا ہیلی کاپٹر جب مری کے اوپر پہنچا تو انہوں نے ساتھ بیٹھے صداقت عباسی (ایم این اے مری) سے نہایت معصومانہ سوال کیا، ”سئیں ایہا برف تونسے کیوں نیوھے پٹھیندے، اساں ویہہ روپے کلو گھندے کھڑوں“ ۔
دروغ برگردن راوی، اس وقت ڈپٹی کمشنر راولپنڈی برف کے طوفان میں پھنسنے والے سیاحوں کو نکالنے کے حوالے سے حکومتی انتظامات کے بارے میں بریفنگ دے رہے تھے، جو 70 فیصد ان کے اپنے کارناموں پر مشتمل تھی۔ یعنی اگر وہ بروقت میدان میں نہ اترتے تو پتہ نہیں کیا سے کیا ہوجاتا۔
بلاشبہ تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان بلکہ پورے دمان کا گرم ترین شہر ہے جہاں سال میں (دس پندرہ دن) سردی ابن بطوطہ کے فارمولے کے مطابق پڑتی ہے، یعنی نو ماہ گرمی ہوتی ہے اور تین ماہ گرمی نہیں ہوتی!
خاص طور پر مئی، جون، جولائی میں ائر کنڈیشنر بھی کام چھوڑ دیتے ہیں اور ریفریجریٹر یا فریزر بھی اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں تب تونسے کے شہری کوٹ ادو سے آنے والی برف 50 روپے فی کلوگرام خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لہٰذا یار لوگ مہنگی برف کی بجائے بھنگ کو ہی ترجیح دیتے ہیں، اس حوالے سے تونسے کا بزدار ہاؤس خصوصی شہرت کا حامل ہے۔
تونسہ شریف کی پہچان عام طور پر تین چیزوں سے ہوتی ہے، گرمی، پیر پٹھان (خواجہ سلمان تونسوی) اور محمود نظامی۔ مگر اب آہستہ آہستہ عثمان بزدار اس کی پہچان بنتے جا رہے ہیں، اب اسے تونسہ والوں کی خوش قسمتی کہیں یا پھر بدقسمتی۔
ہاں، تو بات ہو رہی تھی دو روز قبل مری میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے کارناموں کی، جو وزیراعلیٰ کے دورہ مری دوران ثابت کرنے پر تلے رہے کہ پچھلے تین چار روز میں راولپنڈی انتظامیہ کی کارکردگی مثالی سے بھی کافی اوپر رہی، بلکہ اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا مری آنا ہی ان کی مثالی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور یہ جو چند لوگ جان سے چلے گئے ان کی اپنی غلطی تھی، اب اگر کسی کو اپنی جان پیاری نہ ہو تو انتظامیہ کیا کر سکتی ہے!
ایک بار پھر دروغ برگردن راوی، وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ہیلی کاپٹر کی سیر کے دوران ایک مرتبہ بھی ڈپٹی کمشنر کو نہیں ٹوکا کہ جب محکمہ موسمیات والے پیشین گوئی کرچکے تھے کہ 7 اور 8 جنوری کی درمیانی رات مری کے پورے علاقے میں معمول سے زیادہ برف گرے گی، تو سڑکوں پر برف کو جمنے سے روکنے کے لئے نمک کیوں نہیں چھڑکا گیا، برف ہٹانے کے لئے کرینیں کیوں نہیں لگائی گئیں، ٹریفک کا نظم قائم رکھنے کے لئے ایکسپریس وے، پرانا مری روڈ، پتریاٹہ، بھوربن، جھیکا گلی روڈ، گھوڑا گلی روڈ، مال روڈ اور دیگر سڑکوں پر اضافی ٹریفک اہلکار کیوں تعینات نہیں تھے، جب سیاح شدید برفباری میں سڑکوں پر مر رہے تھے تو اس وقت کرین آپریٹرز اور ٹریفک اہلکار اپنے گھروں میں چین کی نیند کیوں سوتے رہے، اسسٹنٹ کمشنر مری اس وقت کہاں تھے؟
یقیناً یہی وہ اہم ترین سوال ہیں جو ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو ضرور پوچھنے چاہیے تھے، مگر وہ تو اپنے ہیلی کاپٹر کی کھڑکی سے حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ جابجا بکھری برف کو دیکھتے رہے، کاش ایسا کوئی طریقہ ہوتا کہ برف کا کچھ حصہ تونسہ شریف لے جاکر سنگھڑ کے تل میں دبا دیا جاتا اور بوقت ضرورت تھوڑی تھوڑی نکال کر استعمال کرتے رہتے۔
مگر اس نئی ریاست مدینہ میں سوال کی مکمل طور پر ممانعت ہے جو نہ تو وزیراعلیٰ اپنی انتظامیہ سے پوچھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی صحافی موجودہ حکومت کی نا اہلی، غفلت، بدانتظامی، کرپشن و بدعنوانی اور بددیانتی کا سوال اٹھا سکتا ہے، چاہے وہ سوال توشہ خانہ کا ہو یا پھر مری میں سیاح خاندانوں کے بے بسی سے مرنے کا!
حالانکہ ہر سال برفباری دیکھنے لگ بھگ اتنے ہی لوگ مری آتے ہیں اور گاڑیوں پر ہی آتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا کیا ہو گیا۔ سڑکیں سکڑ کیوں گئیں؟
کہا جا رہا ہے یہ تو وہاں جانے والوں کی غلطی ہے، انہیں چاہیے تھا کہ موسم کی صورتحال دیکھ کر جاتے! بھائی، وہ برفباری دیکھنے جا رہے تھے، کیا وہ اس وقت جاتے جب برفباری ختم ہوجاتی؟
مجھے یاد پڑتا ہے کہ 2018 میں ہم بھی پی سی بھوربن میں آل پاکستان چیمبرز آف کامرس کانفرنس سے واپسی پر راستے میں اچانک شروع ہونے والی برفباری میں پھنستے پھنستے رہ گئے تھے۔ ہیلپ لائن پر صرف ایک فون کال کے نتیجے میں دس سے پندرہ منٹ کے اندر کرین پہنچ گئی اور آدھے گھنٹے میں متبادل راستہ کھلوا کر پھنسی ہوئی گاڑیاں مری روڈ سے ایکسپریس وے پر پہنچا دی گئیں۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا کہ راستے میں ٹی ایم اے کے اہلکار سڑکوں پر نمک چھڑک رہے تھے اور ٹریفک اہلکار بھی جگہ جگہ موجود تھے۔ اس لیے مقامی موقع پرست اپنی للچائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ حسرت سے دیکھتے رہ گئے اور تھوڑی دیر بعد ہم ایکسپریس وے پر پکوڑوں کے ساتھ چائے نوش فرما رہے تھے۔
ہاں، یہی تو وہ موقع ہوتا ہے، مری روڈ پر چالیس پچاس گاڑیاں رکی ہوئی تھیں، تھوڑی تھوڑی دیر بعد دو تین مقامی افراد معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے ہمارے پاس سے گزرتے اور بڑبڑاتے ہوئے کہہ جاتے، سر آپ لوگ تو آج پھنس گئے ہو اب یہاں کوئی مشینری نہیں آئے گی، رات شروع ہوتے ہی برفباری مزید بڑھ جائے گی پھر نہ آگے جاسکیں گے اور نہ پیچھے۔
دراصل وہ چاہتے تھے کہ ہم پھنس جائیں اور کوئی ایمرجنسی مدد بھی نہ پہنچے، کیونکہ سخت موسم میں ہمارا اور وہاں موجود دیگر لوگوں کا پھنس جانا ان کے لئے کمائی کا سنہری موقع ثابت ہوتا۔ ہم تو پھر بھی چھڑے چھانٹ بیس پچیس صحافی تھے، جبکہ ہمارے آگے پیچھے موجود گاڑیوں میں فیملیاں بھی تھیں۔
اہم اور ٹیکنیکل بات یہ ہے، اگر کرین اور نمک گاڑی کی صورت میں ہنگامی امداد کے پہنچنے میں مزید پندرہ منٹ کی تاخیر ہو جاتی تو شاید ہمارا گاڑیوں سمیت وہاں سے نکلنا آسان نہ رہتا، کیونکہ اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ساتھ برفباری تیز ہو رہی تھی۔
دراصل مری اور اردگرد کے علاقوں کا یہی ٹریڈ سیکرٹ ہے، کیونکہ برفباری کی صورت میں ہنگامی مدد کے پہنچنے میں آدھے سے پونے گھنٹے کی تاخیر جہاں ایک طرف پھنسے ہوؤں کے لئے مصیبت کا پیغام تو دوسری طرف مقامی لوگوں کے لئے نوید مسرت ثابت ہوتی ہے، سارا کھیل ہی آدھے پونے گھنٹے کا ہوتا ہے جبکہ اگر ہنگامی امداد رات بھر نہ پہنچے تو ان لوگوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ انہیں اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ راولپنڈی، گوجرانوالہ، لاہور، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور، کراچی، حیدرآباد سے مری گھومنے آئے ہیں وہ کوئی غریب لوگ تو ہوں گے نہیں، اگر سفید پوش بھی ہیں تو پیسوں کا بندوبست کر کے آئے ہوں گے ۔ پھر ہوٹل یا گھر کا وہ کمرہ جس کا دن کے وقت کرایہ چار ہزار روپے ہوتا ہے رات کو بڑھ کر چالیس ہزار روپے ہو جاتا ہے، روٹی سو روپے، چائے تین سے پانچ سو روپے تو آلو گوشت کی پلیٹ ہزار کی ہوجاتی ہے۔ حتیٰ کہ چھتری پکڑ کر منزل مقصود تک پہنچانے والا بھی ہزار پانچ سو کما لیتا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ اس ساری کمائی حصہ (بقدر جثہ) کافی اوپر تک جاتا ہے، اس لیے سیاحوں کے برفباری میں پھنسنے پر ہنگامی امداد لیٹ نہیں ہوتی بلکہ لیٹ کروائی جاتی ہے، کیونکہ مری اور گرد و نواح کے ہوٹل مالکان سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور مقامی سیاسی قیادت تک سب کا روزگار اسی سے چلتا ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک سکرپٹ کے تحت ہو رہا ہوتا ہے، حتیٰ کہ سیاسی رہنماؤں کے پاس مگر مچھ کے ریڈی میڈ آنسو بھی پہلے سے تیار رکھے ہوتے ہیں!
کیا آپ نے کبھی سنا کہ کسی سرکاری افسر نے کبھی مری میں گرانفروشوں پر کوئی چھاپہ مارا ہو، کسی کو مہنگی اشیا بیچنے پر گرفتار یا جرمانہ کیا ہو؟ حالانکہ سب جانتے ہیں وہی چکن کڑاہی جو اسلام آباد میں زیادہ سے زیادہ بارہ سو روپے میں لوگ کھاتے ہیں وہی مال روڈ مری پر تین سے پانچ ہزار روپے کی ملتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے مال روڈ، مری کے ریسٹورنٹ مالکان سے پوچھا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کے اتنے زیادہ نرخ کیوں، کیا کبھی کسی نے مری میں اس بدانتظامی کا نوٹس لیا، کیا کبھی انہوں نے اس بدانتظامی کا نوٹس لیا ہے جو تھر میں پندرہ سال پہلے مرنے والے بچوں کی دردناک تصویریں ابھی تک اپنے چینلوں پر چلاتے رہتے ہیں یا پھر وہ جو تھر کے بچوں کا درد اپنے دل میں لے کر ہر سال کالے کوٹ کے جاہ و جلال کے ساتھ مٹھی اور چھاچھرو پہنچ جاتے ہیں۔
تاہم سوال یہ بھی ہے، خدا نخواستہ اگر مری صوبہ سندھ میں ہوتا اور اسی طرح کا سانحہ رونما ہوا ہوتا تو۔ کیا ہوتا؟ کیا پھر بھی آپ اس طرح کی تاویلیں پیش کر رہے ہوتے، حالانکہ گزشتہ سال کراچی میں بارش کا پانی جمع ہونے یا کچرا اکٹھا ہونے سے (خدا نہ کرے ) مری جیسا کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا، مگر ٹی وی چینلوں پر جو قیامت برپا کی گئی وہ دیدنی تھی (حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ ڈی ایچ اے اور نیا ناظم آباد جیسی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے کچرا اٹھانے اور بارش کا پانی نکالنے کی ذمہ داری سوسائٹی انتظامیہ کی ہے، مگر وہ اپنے فنڈز کیوں خرچ کریں ) ۔ اگر پنجاب میں گورنر راج نہیں تو سانحہ مری پر کم از کم کراچی جتنی پریشانی کا اظہار ضرور کرنا چاہیے، خاص طور پر ان لوگوں کو جو ہر وقت بات بے بات سندھ میں گورنر راج کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر