گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح چار بجے بیدار ہوا تو بارش کی سوندھی خوشبو کمرے میں پھیل چکی تھی ۔باہر نکلا تو برکھا موتیوں کی طرح آہستہ آہستہ برس رہی تھی ۔ صحن میں پانی بہت معمولی مقدار میں بہ رہا تھا۔ ذکر نماز سے فارغ ہو کر پھر صحن کا رخ کیا تو بارش قدرے تیز ہو چکی تھی۔ میں معمول کے مطابق بیسمنٹ میں واک اور یوگا کرنے لگا ۔آج ہوا میں بارش کی بھینی بھینی مہک دل و دماغ کو معطر کرتی رہی اور یادوں کا ساون چھم چھم برستا رہا۔ عجیب بات ہے موسم کے بدلنے سے انسان کے اندر کا رومانوی موسم انگڑائی لینے لگتا ہے اور یادوں کی گلاب کے قافلے اُڑ اُڑ کر بدن میں مہکار پیدا کر دیتے ہیں۔ ورزش سے فارغ ہو کر باہر نکلا تو کونو اور نیم کا درخت دھلا دھلا اپنے پتوں کا سر نیوڑاۓ ایسا کھڑے تھے جیسے کسی حسینہ کے تازہ دھلے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں ۔ میں پرندوں کو دانہ ڈالنے گیا تو ابھی تک وہ اپنے آشیان کی ریشمی چادر میں دبکے سو رہے تھے۔ کچن میں آ کر سماوار سے خوشبو سے مہکتی چائے پیالی میں انڈیلی اور شھد کا چمچ ڈال کر ہلانا شروع کیا۔ ارے یاد آیا آج تو مرغ بھی سو رہا ہے ککڑا دھمی دا بانگ دینا بھول گیا۔۔؎
بارش میں تیری یاد کی خوشبو کے قافلے۔۔
ایسے اُڑے کہ شہر گلابوں میں بَس گیا۔
ڈیرہ کی تو صبح اس طرح شروع ہو رہی ہے آپ کی طرف کیا حال ہے؟ کمنٹس میں بتائیں
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ