ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ماں جس طرح اپنے بچوں سے پیار کرتی ہے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی ، نگہداشت اور دیکھ بھال جس وارفتگی اور جانفشانی سے سرانجام دیتی ہے اس پر کچھ لکھنے اور بولنے سے قبل ہی انسانی سربصد احترام جھک جاتے ہیں۔ بالکل اس ماں کی طرح ایک ریاست اپنے شہریوں سے اولاد جیسا برتاو کرتی ہے ۔اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال ان کے لیئے صحت، تعلیم ، امن وامان کی فراہمی ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے ۔اور فلاحی ریاستیں ان امور کا خیال رکھتی بھی ہیں اور جہاں ریاست ان امور میں غفلت کی مرتکب ہوتی ہے تو وہاں شہریوں کی زبان سے بے اختیار اس خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی ۔
کیا ہماری ریاست ماں کے جیسی ہے ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس ریاست کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے شہریوں کی حالت زار کو دیکھنا ہوگا، شہریوں کو دستیاب سہولیات کا جائزہ لینا ہوگا۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا شہریوں کی جان ومان محفوظ ہے کیا شہریوں کو روزگار کے مواقع میسر ہیں کیا شہریوں کو حکومتی سرپرستی میں چلنے والے صحت اور تعلیم کے ادارے دستیاب ہیں۔اگر دستیاب ہیں تو ان کی خدمات کا معیار کیا ہے اور اگر دستیاب نہیں ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں ۔منصف بن کر ایمانداری سے اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں اور پھر نتیجہ اخذ کریں ۔دلچسپ امریہ ہے کہ آپ اس موجودہ ریاست کے جس حصے میں آباد ہیں آپ کا جواب یہی ہوگا کہ ریاست اپنے فرائض کی ادائیگی میں اب تک یکسر ناکام رہی ہے ۔جو ریاست اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نا کرسکے اس کی کارکردگی پر مزید کیا بات کی جائے ۔
حبیب جالب نے کہا تھا ، اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے ،، زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے ۔ ایک ایسی ریاست جس کا خالق سڑک کنارے ایمبولینس میں بے یارومددگار پڑا رہا ہو۔جس کے وزرائے اعظم تختہ دار پر جھول گئے ہوں یا بیچ سڑک قتل ہوجائیں ۔ایک ایسی ریاست جہاں ضرورت سے زیادہ اناج اگتا ہو اور پھر بھی لوگ بھوک سے خودکشیاں کرلیں اور قابل علاج بیماریوں کے باوجود سسک سسک مرجائیں جہاں کروڑوں بچوں کو تعلیم کی سہولت ہی میسر نا ہو اور جو کسی طرح پڑھ لکھ گئے ہیں ان کے لیئے روزگار نا ہو ایسی ریاست کب ماں کے جیسی ہوسکتی ہے ۔ماں سے تو اولاد کے دکھ نہیں دیکھے جاتے توپھر یہ ریاست کیسے اپنے لوگوں کو دکھ اور تکالیف میں دیکھ کر مطمئن ہے پرسکون ہے ۔
حیران کن امر ہے کہ جہاں پولیس حراست میں ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارئے جائیں ،جہاں ڈاکٹرز کی غفلت سے مرنے والے بدنصیبوں کے لواحقین کو یہ کہہ کر تسلی دی جائے کہ اس میں اللہ کی رضا تھی ۔سڑک حادثات میں مرنے والوں سے متعلق یہ کہنا کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا کہ حادثہ ہو گیا وگرنہ ڈرایور کی کوئی زاتی دشمنی تو نہیں تھی ۔گویا کوئی ایک فعل ایسا نہیں جس میں ریاست زمہ داری قبول کرئے بلکہ ہر سانحے کی زمہ داری تقدیر یا پھر دوسروں کے کندھوں پر ڈالنا ریاست کا وطیرہ بن چکا ہو ایسے میں سانحہ مری میں مرنے والوں کی زمہ داری ریاست یا حکومت کیوں قبول کرئے گی ۔کس نے کہا تھا اپنے بچوں کو برف باری کے مناظر دکھانے لے جائیں اور وہ بھی اس وقت جب آپ کی جیب میں کسی مشکل گھڑی میں مری کے ہوٹل مافیا کو ادائیگی کے لیے مطلوبہ رقم موجود نا ہو
ریاست کی کارکردگی کی بات کرتے ہیں تو حالت یہ کہ سات دھائیوں سے یہ ریاست سماجی انفراسٹرکچر کو بہتر نہیں کرسکی ۔ شہریوں کو محفوظ سفر نہیں دے سکی کسی مشکل گھڑی میں مدد کے قابل نہیں ۔اگر کسی مصیبت میں بیرونی امداد ملنے کی توقع ہوتو این ڈی ایم اے کی پھرتیاں دیکھنے لائق ہوتی ہیں اور اگر امداد نا ہوتو لگتا ہے کہ اس نام کا ادارہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ رہی بات مقامی انتظامیہ کی تو نا تو ان کےپاس افرادی قوت ہے اور نا ہی مطلوبہ سہولیات کہ وہ کچھ کرسکیں ۔جن کے پاس یہ سب کچھ ہے ان کو چند کلومیٹر کے فاصلے پر مصیبت میں گھرے لوگوں تک پہنچنے میں اتنا وقت لگ گیا کہ اس دوران کئی خاندان اجڑ گئے ۔انسانی بستیوں کے درمیان مسافر مرتے رہے اور مکین بے خبر رہے صرف مکین ہی نہیں مقامی انتظامیہ ، صوبائی اور وفاقی حکومت بلکہ ریاست تک بے خبر رہی ۔وہی ریاست جس کا خواب دیکھا تھا کہ ریاست ہوگی ماں کے جیسی۔
مری جیسا سانحہ نا تو پہلی بار ہوا ہے اور نا ہی یہ آخری بار ہے۔جب تک ریاست کے وسائل پر نااہل ، نالائق سیاسی اشرافیہ مسلط رہے گی جب تک اختیار اور وسائل کا ارتکاز چند گروہوں کی بہتری کے لیے ہوگا جب تک ریاست عام آدمی کی زمہ داری قبول نہیں کرئے گی جب تک ریاست اپنے فرائض کوایمانداری سے ادا نہیں کرئے گی جب تک ریاست کی حدود میں رہنے والوں کو یکساں حقوق حاصل نہیں ہوں گے جب تک ریاست میں موجود طبقات کا خاتمہ نہیں ہوجاتا ، جب تک تخت پر بیٹھے حاکم سے لے کر فرش پر بیٹھے مزدور کا سماجی مرتبہ ایک جیسا نہیں ہوجاتا ، جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک ریاست ماں جیسا رویہ نہیں اپناتی تب تک ایسے سانحات ہوتے رہیں گے لوگ اسی طرح بے یارومددگار تڑپ تڑپ کر مرتے رہیں گے ۔ریاست کا نظریہ ، ترجیحات ، ریاستی انتظامی ڈھا نچہ بدلنا ہوگا۔ریاست اور عوام کے مابین عمرانی معاہدے یعنی آئین پر عمل کرنا ہوگا۔اگر یہ سب کچھ نا کیا تو سانحہ لاہور ، سانحہ ساہیوال ، سانحہ سیالکوٹ ، سانحہ مری کے بعد کسی اور سانحہ کے منتظر رہیں ۔یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اگلے کسی سانحہ کا شکار ہم ہوں ۔جب تک کسی سانحہ کا شکار نہیں ہوتے تب تک زندہ رہنے میں کیا برائی ہے ۔
مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ