نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اوپر مت دیکھو||محمد عامر خاکوانی

مصیبت اور ایمرجنسی کے لئے تیار نہ رہنے والی انتظامیہ اور حکومت بھی نالائق ، عاقبت نااندیش اور کمزور ہی کہلائے گی۔ اس صورتحال کا یک طرفہ تجزیہ کرنے والے اہل قلم اور میڈیا پرسنز بھی اس ظلم اور زیادتی کا حصہ بنیں گے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے روز نیٹ فلیکس پر ایک نئی انگریزی فلم دیکھی، ڈونٹ لک اپ (Don’t Look Up)۔یہ ایک عمدہ طنزیہ (Satirical) سائنسی فکشن فلم ہے۔میں نے یہ اپنے پسندیدہ اداکار لیونارڈ ڈی کیپریو کی وجہ سے دیکھو، وہی ٹائٹینک فلم کا ہیرو جس نے بعد میں بہت سی کمال فلموں میں کام کیا اور دو سال پہلے اسے آسکر ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اس میںسینئر اداکارہ میرل سٹریپ بھی ہیں جنہوں نے امریکی خاتون صدر کا کردار ادا کیا، جبکہ ہنگر گیمز فلم سیریز سے شہرت پانے والی دلکش اداکارہ جینیفر لارنس کا مرکزی کردار ہے۔
یہ عام روٹین سے قدرے ہٹی ہوئی فلم ہے ، جس میں گلیمر نہیں۔ امریکی سماج،میڈیا ، سوشل میڈیا اور وائٹ ہائوس جس طرح سطحی ، عامیانہ چیزوں سے متاثر ہوا ہے، اس پربڑا کاٹ دار طنز ہے۔ مجھے لگا کہ شائد سابق صدر ٹرمپ کو ذہن میں رکھا گیا کیونکہ جو خاتون صدر دکھائی گئیں ، وہ ویسی ہی بے وقوف ، بڑبولی اور بے حس تھی۔ ٹرمپ نے جس طرح اہم عہدوں پر میرٹ بالائے طاق رکھ کر اپنی پسند کے لوگ تعینات تھے، ویسا وائٹ ہائوس اس فلم میں بھی نظر آیا۔
کہانی سادہ ہے۔ خلائی سائنس پر ریسرچ کرنے والے دو سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ ایک بڑا دم دار ستارہ (Comet)زمین کی طرف آ رہا ہے اور یہ اتنا بڑا ہے کہ ہماری زمین پر موجود سب کچھ تہ وبالا ہوجائے۔ ریسرچ ڈیٹا سے پتہ چلا کہ چھ ماہ میں یہComet لازمی طور پر زمین سے ٹکرائے گا اور اگر کسی طرح اسے خلا ہی میں تباہ نہ کیا گیا توایک طرح سے قیامت برپا ہوجائے گی، زمین نامی سیارہ اپنی تمام مخلوقات سمیت صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ دونوں سائنس دان (لیونارڈو سینئر سائنس تھا جبکہ جینیفر لارنس پی ایچ ڈی کر رہی تھی)پریشان ہو کر حکام بالا تک پہنچے، سپیس سائنس سے متعلق ایک ادارے کے سربراہ نے ان کی وائٹ ہائوس میں صدر سے ملاقات طے کرا دی۔
صدر نے ان کی بات سنجیدگی سے نہ سنی ، وہ پریشان تھی کہ اس کے نامزد کردہ ایک امیدوار کی اخلاقی کمزوریاں ایکسپوز ہوگئی ہیں اور میڈیا میں شدید تنقید ہورہی ہے۔ سائنس دانوں نے سوچا کہ میڈیا کو یہ بتایا جائے کہ اگر کچھ نہ کیا گیا تو چھ ماہ میں ہم سب مر جائیں گے۔ بدقسمتی سے ایک بڑے اخبار میں خبر دینے اور ایک چینل کے مارننگ شو میں وقت ملنے کے باوجود ان کی بات کو کسی نے لفٹ نہ کرائی، ہر کوئی ان کا مذاق اڑاتا رہا بلکہ سوشل میڈیا کے رواج کے مطابق میمز بنتے رہے، مختلف ٹک ٹاک کلپس بنے وغیرہ وغیرہ ۔ خیر بعد میں امریکی صدر کو ناسا کے سائنس دانوں نے بتادیا کہ یہ بات درست ہے اور زمین خطرے میں ہے، تب انہیں ہوش آیا، مگر پھر کمرشل ازم اور سرمایہ دارانہ معیشت کے اپنے مسائل آڑے آئے۔
کہانی میں مختلف موڑ آئے ، میں انہیں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ جس نے فلم دیکھنا ہو، وہ خود دیکھے اور سمجھے۔ اصل نکتہ اس میں یہ ہے کہ پوری دنیا تباہ ہو جانے کی خبر کو بھی سیریس نہ لیا گیا اور میڈیا، سوشل میڈیا اپنی سطحی ، ہلکی حرکتوں میں مصروف رہا۔ پھر معاملہ سیاست کا شکار ہوگیا۔ صدر کے سیاسی مخالفین نے اسے کمپین کا حصہ بنایا تو صدر اور اس کی پارٹی نے یکسر مختلف موقف اپنایا۔ حتیٰ کہ وہ cometیا دم دار ستارہ یا جو بھی اس کا مناسب اردو سائنسی نام ہو، وہ سر پر آپہنچا اور دوربین کے بجائے آنکھ ہی سے دیکھا جانے لگا۔ تب ان دونوں سائنس دانوں کے حامیوں نے ایک نعرہ لگایا لُک اپ(Look Up)یعنی اوپر دیکھو اور خود ہی اندازہ لگا لو کہ ہم نے درست کہا تھا، قیامت سر پر آپہنچی۔ اس کے جواب میں صدر کی میڈیا ٹیم نے نعرہ تخلیق کیا، ڈونٹ لُک اپ (Don,t Look Up)۔ان کا بیانیہ تھا کہ اوپر نہ دیکھو ، یہ سب جھوٹ ہے۔
آخر میں یہ نعرہ لگانے والے خود ہی مایوسی کے عالم میں بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ فلم کا اختتام دلچسپ اور طنزیہ ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے بار بار یہی خیال آتا رہا کہ یہ امریکہ کی کہانی بلکہ ایک خاص حوالے سے ہم سب کی کہانی ہے۔ ہم پاکستانی بھی اسی آئینے میں نظر آئے۔ ہمارے حکمران، ان کے وزرا، ان کی میڈیا ٹیم اور ان کے مخالفین ، ان کی میڈیا ٹیم سب کا رویہ اسی طرح کا ہے۔ سامنے موجود حقائق سے آنکھیں چرانا،نہایت ڈھٹائی سے جھوٹی تصویر پیش کرنا اور اپنی غلطی کبھی ایمانداری سے تسلیم نہ کرنا۔ دوسری طرف ہمارا میڈیا، سوشل میڈیا بھی الا ماشااللہ اسی انداز کا ہوچکا ہے۔ اہم اور سنجیدہ ایشوز کی کہیں پر جگہ نہیں۔ ہر جگہ سنسنی خیزی اور ریٹنگ بنانے والے واقعات کی اہمیت ہے۔
زراعت، صنعت، معیشت، تعلیم ، صحت ، پینے کا صاف پانی ،امن وامان، روزگار، علم وادب جیسے اہم ترین موضوعات پر ہماری پارلیمنٹ، اہل دانش، ہمارے میڈیا کے جغادری اینکرز، تجزیہ کاروں کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ جواب نہایت مایوس کن ہے۔ ہمارے ہاں کتابیں سرے سے ڈسکس ہی نہیں ہوتیں۔ کل چھپنے والے کالموں کی تعداد گن لیں اور پھر دیکھیں کہ بمشکل ایک فیصد کالم کتابوں پر لکھے گئے، ان میں سے بھی کئی کالم مصنف یا پبلشر کی سفارش یابار بار التجا کئے جانے پر لکھے گئے۔ اپنے پلے سے کتاب خرچ کر کے لکھنے کی مثال شاذ ہے۔ اخبار میں چلیں اکا دکا مثال تو ہے، مگر ٹی وی چینلز اور نیوز پروگراموں میں ایساکرنے کی کوئی مثال ہی نہیں۔ صفر فی صد شیئر۔ آج کل مری میں جس طرح کا بحران پیدا ہوا اور شدید برف باری سے لوگ متاثر ہوئے،بہت سی قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔ ان پر سوشل میڈیا میں بحثیں پڑھ کر اتنی کوفت ہوئی کہ فیس بک ، ٹوئٹر سے کچھ دیر کے لئے لاگ آئوٹ ہونا پڑا۔
وہی طریقہ کہ ہر کوئی دوسرے پر الزام تراشی کر رہا ہے، مسئلے کا تجزیہ کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ مری کا یہ بحران نیا نہیں، کئی بار ہوچکا ہے۔ ہر سال عیدین پر یہی ہوتا ہے کہ گنجائش سے پچاس سو گنا زیادہ لوگ مری اور گلیات میں داخل ہوگئے ۔ فطری طور پر بحران پیدا ہوا،، میلوں لمبی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، بوڑھے، بچے، خواتین راتیں گاڑی میں گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ موسم گرما میں کم وبیش ہر بار ہو تا ہے۔ اس بار اس لئے نقصان زیادہ ہوا کہ برف باری کے باعث گاڑیاں پھنس گئیں، سردی شدید تھی۔ کچھ لوگوں کے پاس گاڑی میں رات گزارنے کے سوا آپشن نہیں تھی،شدید سردی یا گاڑی بند کر کے ہیٹر چلانے سے جانی نقصان ہوا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر بار بحران ہوجاتا ہے تو اس کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاتی؟ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کہ ایک خاص تعداد کے بعد لوگوں کو وہاں جانے سے روک دیا جائے ۔ یہ سب گاڑیاں مختلف چیک پوسٹوں سے گزر کر جاتی ہیں، کہیں پر ایسا سسٹم ہو کہ جانے والی گاڑیوں کا حساب کتاب کر کے ریڈ لائن کراس ہونے سے پہلے ہی لوگوں کو روک دیا جائے۔ اسی طرح مری اور گلیات وغیرہ کے لئے الگ سے طاقتور ، وسائل رکھنے والی اتھارٹیز بنائی جائیں جن کے پاس تمام تر سہولتیں، اوزار اور افرادی قوت ہو۔ ضروری ہے کہ ہر بار خوفناک بحران پیدا ہو، لوگ مریں اور پھرہم حرکت میں آئیں؟ ہم ایسا کوئی سسٹم کیوں نہیں بناتے کہ ایمرجنسی پیدا ہی نہ ہو ۔ہم سر پر آئی قیامت صغریٰ کو دیکھنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟ جان بوجھ کر کس لئے ٹالتے رہتے ہیں ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کئی روز سے یہ خبریں تو آ رہی تھیں کہ لوگ گنجائش سے زیادہ ہوگئے، برف باری سے سڑکیں بند ہیں، تب نادانوں کی طرف منہ اٹھا کر وہاں بھاگے چلے جانے کی کیا تک تھی؟اتنی بھی کیا انٹرٹینمنٹ کہ اپنے پیاروں کی جانیں دائو پر لگا دی جائیں۔
حکومت کو انتظام کرنے چاہئیں، مگر ہمارے جیسے معاشروں میں سب جانتے ہیں کہ کیسی ناکارہ، فضول اورکاہل انتظامیہ اور سرکاری اہلکار ہیں۔ایسے میں جان کا تحفظ تو یقینی بنایا جائے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تیز بارش میں لاہور، پنڈی، کراچی وغیرہ کا کیا حال ہوجاتا ہے۔ کئی سڑکیں دریا بن جاتی ہیں ، ایسے میں بغیر کسی معقول وجہ کے ان جگہوں کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ اب تیز بارش میں کوئی منہ اٹھا کر لاہور کے سب سے نشیبی علاقہ لکشمی چوک چلا جائے اور وہاں اس کا موٹرسائیکل یا گاڑی پانی میں پھنس جائے، اسے خواری کے ساتھ میلوں پیدل چلنا پڑے اور پھر وہ حکومت پر غصہ نکالے کہ انہوںنے لکشمی چوک کے مسئلے کو حل کیوں نہیں کیا۔ یہ رویہ درست نہیں۔ حکومتیں اپنا کام کریں، مگر ہم ان کے کام کو آسان کریں، مشکل نہ بنائیں۔ بات وہی ہے کہ آنکھ اٹھا کر سر پر آئی مصیبت کو دیکھ لیں۔ یہ سوچ لیں کہ ایسا کرنے یا نہ کرنے سے کون سی مشکل پیدا ہوجائے گی ؟بلا سوچے سمجھے ایڈونچر میں کود پڑنا حماقت ہی ہے۔
مصیبت اور ایمرجنسی کے لئے تیار نہ رہنے والی انتظامیہ اور حکومت بھی نالائق ، عاقبت نااندیش اور کمزور ہی کہلائے گی۔ اس صورتحال کا یک طرفہ تجزیہ کرنے والے اہل قلم اور میڈیا پرسنز بھی اس ظلم اور زیادتی کا حصہ بنیں گے۔ ہر ایک کو اپنا کام اچھے طریقے سے کرنا ہوگا، مختلف پہلو ، آپشنز اور متوقع خطرات سامنے رکھنا ہوں گے، تب ہی اچھے طریقے سے معاملات نمٹائے جا سکتے ہیں۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

About The Author