گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1960ء کی دہائ میں پاکستان کو بنے ابھی تیرہ سال ہی ہوئے تھے مگر پاکستان ہر شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا کیونکہ اس وقت تک وہ لوگ موجود تھے جو انگریزوں کے ساتھ ملازمت کرتے رہے تھے۔ بیوروکریٹ قابل ترین اور ایماندار تھے ۔دفتروں میں میرٹ تھا کرپشن کم تھی۔ ہندو دکانداروں کے مقابلے میں کام کرنے والے ہمارے دکاندار بلیک مارکیٹنگ۔ملاوٹ اور غیر ضروری مہنگائ سے نا آشنا تھے اور اصولوں پر کاربند تھے۔سکول کم تھے مگر استاد مشنری جذبے سے پڑھاتے ۔ڈاکٹروں میں حرص کم اور خوف خدا زیادہ تھا۔
پھر اگلی دہائی میں یوں ہوا کہ ہمارے حکمران ۔حکومتی مشینری۔صنعت و تجارت میں ایک خاص طبقہ قبضہ کر کے چھا گیا اور مڈل کلاس کو علیحدہ کر دیا گیا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو کسی کے ہنر Skill کی بجاۓ ان کے چمڑے skin پر یقین رکھتا ہے۔ اس طبقے نے اپنے سکول ۔ہسپتال ۔کالونیاں علیحدہ بنالیں اور عوام سے کٹ کے صرف جائز ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنے لگا۔ ناجائز دولت کے انبار غیر ممالک کے بنکوں میں جمع کراے وہاں بڑے بڑے محلات خریدے اور پیسہ انوسٹ کیا اور ان ملکوں کو فاعدہ پہنچایا۔ جب پاکستان کے غریب اعلی دماغ اور ہنر مند رُلنے لگے تو وہ بھی بیرون ملک ملازمت کر کے ان ممالک کی دولت میں اضافہ کرنےلگے۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک اور عوام کنگال ہو گیے اور مقروض ہو کے غلاموں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اللہ کے بندو پاکستان کے اعلی دماغ اور ہنر مند لوگوں کی قدر کرو۔۔۔Skin کی بجاۓ skill کو جگہ دو ورنہ حال تو سب کے سامنے ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر