وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ جیسے اصحاب علم سے کچھ عرض کرنا طفل ناتراشیدہ کی شوخ چشمی معلوم ہوتا ہے۔ ادب کی مبادیات میں پڑھایا جاتا ہے کہ ناول زندگی کی کلیت (Entirety) کا احاطہ کرتا ہے۔ وقت کے کسی خاص وقفے میں زمین اور اہل زمین کے معاملات کی ممکنہ حد تک مفصل تصویر، واقعے اور خیال کے بیچ آنے والے نیم تاریک گوشے، لمس کی سرسراہٹ سے رنگوں کی ست رنگی طیف تک، خد و خال کے تناسب سے لہجوں کے زیروبم تک، اخلاق کے کیف و کم سے نفسیات کے پیچ و خم تک، سویرے کی گہماگہمی سے شام کے آواز کیے بغیر اترتے دھندلکے تک، ظلم کے اندھیرے سے انصاف کی پکار تک، ناول ایسا پھیلا ہوا تخلیقی کینوس ہے جس کے بارے میں راشد صاحب نے لکھا، ’جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد / میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں‘۔
ایک اضافہ اس بیان میں یہ کہ ناول کی تخلیق میں ایک ان کہے ماضی اور ان دیکھے مستقبل کا غیر مرئی حاشیہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ناول زندگی کے تسلسل کا رزمیہ ہے۔ اب ناول کی توام صنف افسانہ دیکھیے۔ منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت‘ کا دفاع کرتے ہوئے عدالت میں کہا کہ’افسانے کو میں ایک سنگین صنف سمجھتا ہوں‘۔ ہمارے عہد میں گارشیا مارکیز نے کہا کہ ’میں ناول کے مقابلے میں افسانوں کا مجموعہ لکھنا کہیں زیادہ مشکل سمجھتا ہوں۔‘ ارنسٹ ہیمنگوے کی نثر کفایت لفظی کا نمونہ ہے لیکن افسانے میں تو ہیمنگوے ان کہی کی سرحدوں کو چھوتا ہے۔ اس لئے کہ افسانہ زندگی کے میورل سے اٹھایا ہوا ایک پہیلی نما ٹکڑا ہے، ان گنت تجربوں کے ذخیرے سے کشید کی گئی ایک یاد، ثروت حسین نے کہا تھا، ’ایک نظم کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے‘۔ افسانے کا معاملہ مختلف نہیں۔ درویش دو تخلیقی اصناف میں درجہ بندی نہیں کر رہا، فرق بیان کر رہا ہے۔ اس لئے کہ تخلیق کی تاثیر صنف سے مخصوص نہیں۔ ناول تسلسل کا استعارہ ہے تو افسانہ ایک پل کی جھلک۔ ناول زندگی کے ثبات کی گواہی ہے تو افسانہ زندگی کے امکانات میں باہم لاتعلقی اور ناگزیر لایعنیت کا اشارہ۔ لو بھائی، یہ کالم تو نہ ہوا، ادب کی پیش پا افتادہ بحث بنتا جا رہا ہے، تو چلئے واپس اپنی کلبلاتی دنیا اور رنگ بدلتی سیاست میں۔ وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی۔ جاننا چاہیے کہ اپنے دیس میں ان دنوں، ’دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی‘۔ مارچ میں معلوم ہو گا کہ گل تازہ نے سر نکالا ہے یا ’ایں گل دیگر شگفت‘۔
ہمارے ملک کی تاریخ سمجھنا ہو تو سیلاب کے بعد مضافات میں نکل جائیے۔ جگہ جگہ سے سڑک کے ٹکڑے غائب ملیں گے۔ سامنے کے تین بڑے تعطل تو سب جانتے ہیں۔ 8 اکتوبر 58 ء کی رات 20 دسمبر 71 ء تک چلی۔ 5 جولائی 77 ء کی رات 17 اگست 88 ء تک طول کھینچ گئی۔ 12 اکتوبر 99 ء کا تعطل 18 اگست 2008 ء تک باقی رہا۔ اور اس دوران آنے والے مختصر وقفوں میں زلزلے کے زیر زمین جھٹکوں سے اضطراب کو تالیف کی آسودگی نصیب نہیں ہو سکی۔ جگہ جگہ سے شکستہ سڑک پر گاڑی کی سمت اور رفتار ہموار نہیں ہو سکتی تو کروڑوں نفوس پر مشتمل قوم سازش اور جرم کی بے یقینی میں اپنا راستہ کیسے تلاش کرے۔ جمہوری عمل کے ثمرات کے لئے ضروری ہے کہ جمہور کی حکمرانی کو تسلسل کا اعتماد دیا جائے۔ سیاست دان تاریخ کا ناول لکھتا ہے، مدبر کی پہچان یہی ہے کہ اپنی قوم کے لئے صدیوں پر پھیلی تاریخ سے کشید کردہ شعور کی روشنی میں 25، 50 اور سو برس آگے کی فکر رکھتا ہے۔ سیاست دان اپنے کندھوں پر وہ ذمہ داری اٹھاتا ہے جس سے جیتے جی دستبردار نہیں ہوا جاتا۔
عبدالغفار خان نے 23 فروری 1948 کو پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد 18 برس قید و بند میں گزارے، کبھی سیاست سے کنارہ کش ہوئے؟ ایوب خان کے ایبڈو میں 6 برس کی قید کاٹنے کے بعد سہروردی کی بیروت میں پراسرار موت کا راز یہی تھا کہ انہیں واپس آ کر جمہوری سیاست کرنا تھی۔ 1988 سے 2020 تک شیرباز مزاری عملی سیاست میں نہیں تھے لیکن کیا قوم کی قسمت سے لاتعلق بھی ہوئے؟ بھٹو صاحب 4 اپریل 79 ء کی رات تک پاکستان کے رہنما تھے۔ کیا 24 برس کی عمر میں سیاست کی امانت اٹھانے والی بے نظیر بھٹو کو اکتوبر 2007 میں معلوم نہیں تھا کہ وطن واپسی پر موت ان کا استقبال کرے گی؟ 90 ء کے ابتدائی برسوں میں دستوری بالادستی کا جھنڈا اٹھانے کے بعد نواز شریف نے کون سی آزمائش نہیں جھیلی۔
یہ فہرست ایسی مختصر نہیں لیکن خط تنصیف کے دوسری طرف نظر ڈالیے۔ 28 اکتوبر کو جلاوطنی کے بعد اسکندر مرزا نے کبھی پاکستان کی سیاست سے تعلق استوار کرنا چاہا؟ 71ء کے پرآشوب دنوں میں کبھی ایوب خان نے پاکستان کے حالات پر رائے دینے کی زحمت کی؟ ورلڈ بینک سے آنے والے محمد شعیب نے آٹھ برس تک وزارت خزانہ چلائی۔ 76 ء میں واشنگٹن میں گمنام موت تک کبھی پاکستان کی معیشت پر تبصرہ کیا؟ پرویز مشرف علیل ہیں لیکن ان کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت کہاں ہے؟ ریاستی عہدوں سے علیحدگی کے بعد غلام اسحاق خان، محبوب الحق، معین قریشی، وی اے جعفری اور شوکت عزیز نے قوم کی سیاسی اور معاشی قسمت سے کوئی تعلق باقی رکھا؟
فیض صاحب ایک خاص طبقے کے لئے ’ادھر والے‘ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے۔ آج کل کے حالات میں بوجوہ ان ’ادھر والوں‘ کا ذکر کرنا اور یہ بتانا ممکن نہیں کہ وہ کون سی دنیائوں کو رونق بخش رہے ہیں۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جو دفتری اسٹیشنری پر قومی سیاست کے خاکے بنایا کرتی تھیں۔ ذاتیات کی فہرست سازی سے کیا حاصل؟ مدعا صرف یہ ہے کہ سیاست ایک کار مسلسل ہے جس میں دستور کی روشنی میں قوم کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا جاتا ہے۔ اس امانت میں مداخلت کرنے والے اپنے ذاتی مفادات کے لئے قوم کی تاریخ میں تاریک جزیرے اور غیر متصل منطقے چھوڑ جاتے ہیں۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر