عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرٹ فلموں میں حقیقی زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ گمبھیر صورت حال جس کا کوئی حل نہیں، دشوار مرحلے جن کا انجام بند گلی، میلے جسم، بھوکے پیٹ، دھندلے کردار اور کرداروں کے بیچ کشمکش۔ فلم ختم ہو جاتی ہے مگر ہم آسان پسندوں کو سمجھ نہیں آتا کہ فلم میں ہیرو کون تھا۔
حقیقت پسندی پہ مبنی آرٹ فلموں کا مقصد ناظرین کو زندگی کا اصل روپ دکھانا ہوتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کا ہر کردار اپنے اپنے دائرے میں ایک ہیرو ہو، ہوسکتا ہر کردار بقا کی جنگ میں ولن بنا ہو۔ بوریت سے بھرپور ایسی فلموں پہ روپیہ پیسہ کوئی نہیں لگاتا، جو غلطی سے لگا دے تو اسے سرمایہ واپس ملنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس کمرشل فلمیں ہوتی ہیں۔ دھوم دھڑکا، مار کٹائی، پکڑ دھکڑ، ہلا گلا، میوزک کا تڑکا۔ ہیرو پہ کئی لڑکیاں مرتی ہیں، ہیرو کی نظر کہیں ٹھہرتی ہی نہیں، ہیرو کی تگڑی انٹری، سپورٹس مین باڈی ، چلے تو فل ایکشن، رومانس اور جذبات میں اخیر ایکسپریشن۔ ایسی فلموں کا ولن ایک تو گنجا اوپر سے کمبخت اتنا امیچور ناپختہ کہ بار بار مار کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتا۔
اب کوئی فلم ساز ایسے کامیاب فارمولے کا آئیڈیا لائے پیسہ وہ بھی لگاتا ہے جسے کبھی لگانے کی عادت نہیں ہوتی۔ جس کے گھر بجلی بھی نہ آتی ہو وہ بھی سب کچھ وارنے پہ راضی ہو جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا مشن نیا پاکستان فرض کریں کہ ایسی ہی ایک بلاک بسٹر کمرشل فلم ہے، جس کا محض آئیڈیا سنا تو بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے اس فلم پہ اپنا پیسہ لگا دیا۔ فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ہیرو کی چونکا دینے والی پرفارمنس دیکھ کر سپانسرز اب سرمایہ نہیں ساکھ تک داؤ پہ لگانے کو تیار ہوگئے۔
اس فلم کا آئیڈیا زبردست، ڈائیلاگ نہایت عمدہ، کئی ولن اور ایک اکیلا ہیرو، یہ والا فارمولا بھی ایک دم فٹ اور اس پہ غضب یہ کہ دھماکے دار میوزک۔ کھڑکی توڑ رش لینے والی اس فلم میں کامیابی کے 12 مصالحے پورے تھے اس کے باوجود بھی یہ عناصر اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں تھے کیونکہ ایسی کامیاب فلموں کی حشر سامانیاں تو اور بھی فلم سازوں کے پاس تھیں۔
یہ فلم کچھ خاص تھی اس فلم کے پاس بیچنے کا ایک سپیشل آئٹم بھی تھا اور وہ تھا فلم کا ہیرو جو کہ اس فرض شدہ صورت حال میں وزیراعظم عمران خان بنتے ہیں۔ اب اتنا کچھ آپ نے فرض کرہی لیا ہے تو یہ بھی جان لیں کہ اس فلم کی پچھلے تین برسوں سے شاندار نمائش جاری ہے۔
حکومتی جماعت کے حامی ناراض ہوں گے کہ ایک جمہوری سیاسی جماعت کے بارے میں پبلک کو الم غلم فرض کرایا جا رہا ہے۔ لیکن دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا یہ سچ نہیں کہ تحریک انصاف صرف ایک ہیرو کے دم سے بنی، وہی ہیرو اس تحریک کے فنانسرز لایا، اسی کا چہرہ تحریک کا پوسٹر بنا، اسی کے نام سے یہ پارٹی ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔
فرضی فلم والی سیچویشن پسند نہیں آئی تو وزیراعظم عمران خان کا سچ میں دیا گیا بیان ہی سنجیدہ لے لیں وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا برانڈ میں ہوں کوئی چور ڈاکو نہیں۔
اس فرضی فلم والی نقشے بازی کی ضرورت ہرگز پیش نہ آتی اگر میری امریکی شہر شکاگو میں مقیم ایک عزیزہ سے شاندار گفتگو نہ ہوتی۔ وہ اور ان کے میاں دونوں عسکری ادارے کے میڈیکل کور سے تھے، ریٹائر ہو کر بچوں سمیت امریکہ گئے بھی عرصہ دراز ہوا۔ ہماری یہ عزیزہ علی الاعلان کہتی ہیں کہ عمران خان کو پاکستان کی خاطر فنڈز دیے، وہ ابھی امریکہ آئے تھے تب بھاری فنڈز دیے، دوبارہ موقع ملا تو ہماری پوری فیملی پھر دے گی۔
میری زیادہ بےتکلفی نہیں، اوپر سے عمر کا احترام اور رشتے داری کی جھجک کہ میں چاہتے ہوئے بھی پی ٹی آئی پارٹی فنڈنگ کیس کا حوالہ باتوں میں نہ لاسکی۔ انہوں نے خود ہی ٹاپک چھیڑ دیا۔ کہنے لگیں: ’پاکستان کے حالات دیکھے ہیں کیسے ہیں۔ سارے بھیڑیے عمران کے پیچھے لگ جاتے اگر وہ الیکشن سے پہلے بتا دیتا کہ ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اسے کتنا دیا۔ دیا تو ہم سب نے اس کے ہسپتال کے لیے بھی بہت تھا۔‘
میں نے کہا کہ اگر خان صاحب کا لینا اور آپ کا دینا ایسا ہی شفاف ہوتا تو پی ٹی آئی کو درجنوں بینک اکاؤنٹ میں پڑے کروڑوں روپے کے فنڈز چھپانے نہیں پڑتے۔ ابھی تو تحقیقات اس پیمانے پہ ہوئی بھی نہیں کہ فارن فنڈز دینے والے سادہ لوح پاکستانی تارکین وطن کے ناموں کی فہرست میں بعض مشہور اور متنازع نام بھی چھپے ہیں، وہ کون ہیں، ان کی فنڈنگ کے پیچھے کیا مقاصد تھے وغیرہ وغیرہ۔
میں نے اپنی اس عزیزہ کو لگ بھگ موت کا منظر سنانے والے انداز میں الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ اور سکروٹنی کمیٹی کے انکشافات سنائے۔ خیر سے کوئی اثر نہیں ہوا۔ الٹا یہ کہہ کہ بات ہی ختم کردی کہ انہوں نے فنڈز پاکستان کی خاطر عمران خان کو دیے نہ کہ کسی پارٹی کو، پارٹی میں گھپلے ہوسکتے ہیں کیونکہ اور لوگ بھی شامل ہیں مگر عمران خان نے ایک پائی کی بے ایمانی نہیں کی ہوگی یہ پکا یقین ہے۔
جن بیرون ملک پاکستانیوں نے خلوص نیت اور اندھے یقین کے ساتھ عمران خان کے مشن نیا پاکستان کو فنڈ کیا، سپورٹ کیا ان کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ خان صاحب الیکشن کمیشن نہ سہی انہیں تو بتائیں کہ فنڈز کہاں کہاں رکھے، چھپانے کیوں پڑے، دینے والے کون کون تھے، فنڈز کتنے تھے، کہاں استعمال ہوئے، کس نے استعمال کیے۔ اور سب سے اہم کہ پارٹی فنڈنگ کے نام پہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو کیا ملا؟
نوٹ: یہ مضمون مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ بلاگ انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ