گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
173 ۔سال پہلے 1848ء میں جب ایک انگریز ہربرٹ ایڈورڈز چودھوان گیا تو بابڑ قوم اور یہاں کے رہاشیوں کی ذہانت اور بہادری سے بہت متاثر ہوا۔اور حقیقت بھی یہی ہے کہ چودھوان کا ایک ذھین ہندو دیوان لکھی مل ہی وہ شخص تھا جو ڈیرہ کے حکمران نواب شیر محمد خان کا میر منشی رہا پھر سکھ حکمران رنجیت سنگھ کا ڈیرہ پر 1836ء سے 1843ء تک کئی سال گورنر رہا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد لکھی مل کا بیٹا دولت راۓ بھی ڈیرہ پر حکومت کرتا رہا۔
ہربرٹ ایڈورڈ نے 1848ء کی ڈائری میں لکھا کہ جب میں نے چودھوان دیکھا تو وہاں کی زمین درابن اور کلاچی سے زیادہ زرخیز تھی۔بابڑ لوگ بہادر اور بہت ذہین تھے۔ یہاں انگریز نے بابڑ قوم کی ذھانت کا ایک لطیفہ بھی لکھ ڈالا۔اس نے لکھا کہ ایک دفعہ ایک بابڑ کسان کو کسی چالاک شخص نے پارٹنر شپ پر زمین کاشت کرنے کو دی ۔بابڑ نےاس چالاک شخص سے پوچھا کہ تم فصل کی زمین کے اوپر والا حصہ لو گے یا جڑوں والا ۔۔۔اس چالاک نے کہا اوپر والا۔بابڑ کسان نے پیاز ۔گاجر اور شلجم کاشت کر دیے اور چالاک شخص کو فصل کے پتے ملے۔دوسری بار اس چالاک شخص نےناراض ہو کر کہا میں جڑوں والا حصہ لونگا تو بابڑ نے گندم اور گنا کاشت کر دیا اور چالاک شخص کو کچھ نہ ملا۔
خیر یہ تو لطیفہ تھا ۔انگریز نے لکھا چودھوان کے مغرب کوہ سلیمان کی طرف اور جنوب میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے کافی زمین بنجر تھی اور وہاں نوکدار اور کانٹے دار جھاڑیاں اگتی تھیں۔البتہ یہ زمین مارخور ہرن کے رہنے کی پسندیدہ زمین تھی۔انگریز اپنی یادداشت میں لکھتا ہے اس دورے میں ایک بابڑ شخص نے ایک خوبصورت جنگلی مارخور پکڑ کر مجھے تحفے میں دیا اور کہا کہ جب یہ آپ کے پاس ہو گا تو سانپ آپ پر حملہ نہیں کر سکتا کیونکہ مارخور سانپ کو مار کر کھا جاتا ہے۔
آج میں سوچ رہا تھا یہ مارخور ہرن ہی ہے جو پاکستان بننے کے بعد ہمارا قومی جانور National animal
قرار دیا گیا ۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر