نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان میں منشیات کا بڑھتا استعمال ۔۔۔ 50 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل||فہمیدہ یوسفی

ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں ہی افغاستان سے کل 160 ٹن ہیروئن پاکستان میں داخل ہوئی اور اس میں سے تقریباً 20 ٹن ہیروئن یہیں استعمال ہوئی۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات اور جرائم کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق  دنیا  میں 15 سے 64 سال کی عمر کے قریباَ 35کروڑ افراد منشیات کے تباہ کن نتائج سے متاثر ہو رہے ہیں۔UNODC کی ہوش ربا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں یومیہ700افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

 جب کہ 90 لاکھ افراد منشیات کے عادی اور صرف 30 ہزار سے بھی کم افراد کو علاج کی سہولیات میسر ہیں، اس کے علاوہ صحت یابی کے خواہش مند  9.37فیصددیگر افرادکو مفت علاج  میسرنہیں۔ منشیات سے سب سے زیادہ 13 سے 25 سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہورہے ہیں اور مزید خوفناک امر یہ ہے کہ ان میں 50 فیصد نوجوان لڑکیاں شامل ہیں۔

 پنجاب کے 55 اور دیگر صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 5لاکھ افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔UNODC کی ایک اور رپورٹ The Global Afghan Opium Trade 2011 کے مطابق 2009ء میں پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والی 350 سے 400 ٹن افغان افیم میں سے 132 ٹن افیم پاکستان میں ہی استعمال ہوگئی۔

ایک اندازے کے مطابق 2009ء میں ہی افغاستان سے کل 160 ٹن ہیروئن پاکستان میں داخل ہوئی اور اس میں سے تقریباً 20 ٹن ہیروئن یہیں استعمال ہوئی۔

 پاکستان میں منشیات کا استعمال ایک اہم مسئلہ ہے جو معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کر رہا ہے۔پاکستان کے8 لاکھ شہری ہیروئن کا استعمال باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ استعمال ہونے والی ہیروئن کی مقدار کا تخمینہ40 ٹن سے زائد لگایا گیا ہے۔

ہر سال پاکستان میں منشیات کی تجارت سے حاصل کیے جانے والے کالے دھن کا تخمینہ 2 ارب ڈالر لگایاگیا ہے۔ طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی نسل میں نشہ آور اشیا کے استعمال کا رجحان درحقیقت دولت کی انتہائی فراوانی یا انتہائی غربت، دوستوں کی بری صحبت، جنس مخالف کی بے وفائی، اپنے مقاصد میں ناکامی، حالات کی بے چینی اور مایوسی، والدین کی بچوں کی طرف سے بے اعتنائی، معاشرتی عدم مساوات، نا انصافی، والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشے کے آغاز کے اسباب ہو سکتے ہیں۔

خطرناک صورتحال یہ ہے کہ منشیات کے عادی افراد میں تباہ کن بیماریوں میں ایچ آئی وی  شرح سب سے زیادہ ہے، جو دنیا بھر میں 13 فیصد جب کہ پاکستان کے شہر کراچی میں اس کی شرح 42 فیصد ہے۔منشیات کی وجہ سے ایچ آئی وی  جیسی خطرناک ناقابل علاج بیماری بھی پھیل رہی ہے۔

 روس کے خلاف افغان مزاحمت کار مصروف تھے تو پاکستان میں جہاں کلاشنکوف کلچر آیا تو اُس کے ساتھ ہیروئن کی تباہ کاری بھی منشیات کے دیگر جزو کے ساتھ مملکت کے طول و عرض میں پھیل گئی۔

افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد منشیات کی پیداوار میں دس گنا سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا میں منشیات کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے، صوبے میں 10.9  فیصد کسی نہ کسی طور، بالخصوص صوبے کی آبادی کا بڑا حصہ بھنگ، افیون اور دیگر نشہ استعمال کرتے ہیں۔ بلوچستان میں  1.6 افراد نشے کے عادی ہیں، پنجاب میں 8 لاکھ افراد سے زائد افراد ہیروئن اور ایک لاکھ سے زائد افراد افیون کا نشہ کرتے ہیں، صوبہ سندھ میں ملک بھر میں سب سے زیادہ بھنگ کا نشہ کیا جاتا ہے جب کہ صوبے میں سب سے زیادہ چرس 4.3 فیصد بھی استعمال کی جاتی ہے۔

 سندھ صوبے میں 6 لاکھ سے زائد افراد افیون جب کہ 66 فیصد افراد درد ختم کرنے والی ادویات جب کہ 34 فیصد ہیروئن اور افیون کے عادی ہیں۔

 یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے جیسے ہم سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ہمارے معاشرے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جرائم کے خاتمے کے لیے بڑا اہم کردار ہے۔ منشیات کی لعنت عوام کے تعاون کے بغیر ختم نہیں کی جا سکتی، عوام اپنے سامنے اپنے گھروں کے سامنے، گلیوں میں منشیات فروخت ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور بالآخر ان کے بچے بھی اس لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے قانون کی مدد کرنے سے گریزاں ہیں۔

سابق وزیر اعلیٰ سندھ غوث علی شاہ اقرار کرتے ہیں کہ سہراب گوٹھ آپریشن ڈرگ مافیا کے خلاف تھا آپریشن کامیاب ہو جاتا اگر اس علاقے کے ایک ایس ایچ او نے راز فاش نہ کیا ہوتا، غوث علی شاہ کے مطابق ایس ایچ او کو 73 لاکھ روپے روزانہ رشوت ملتی تھی۔ نوجوان نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لیے انھوں نے حتی امکان کوشش کی ہے۔ کچھ بدنام منشیات فروشوں کے اڈوں پر پولیس کارروائی سے آگاہ کیا جو ان کی ذاتی نگرانی میں ہوئے۔پیر آباد کا ایک بد نام ترین منشیات فروش چھاپوں کے بعد کچھ عرصہ خاموش بیٹھتا اور پھر منشیات فروخت کرنا شروع کر دیتا اور اس کے کارندے ضمانت پر باہر آتے ہی دوبارہ منشیات فروخت کرتے، پولیس نے کئی بار کارندوں کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف مقدمات  درج کر کے جیل بھیجے اس اڈے کا یہ حال تھا کہ یہاں لائن بنا کر منشیات حاصل کرنی پڑتی تھی۔

اسی طرح فرنٹیئر کالونی، پٹھان کالونی، ملنگ ہوٹل کے ساتھ ایک بد نام اڈہ عوام میں شدید غصے کا سبب بنا ہوا اور منشیات کے اڈے کے خلاف اہل محلہ نے احتجاجی بینرز بھی آویزاں کئے ہوئے ہیں۔

 درحقیقت ڈرگ مافیا اگر مضبوط ہوتی ہے تو عوام کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے ہم جب پولیس یا کسی ادارے پر اس کی بُری کارکردگی کی بنا پر تنقید کرتے ہیں تو یہاں ہمارا  فرض بھی بنتا ہے کہ ہم جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیوں پر ان کی حوصلہ افزا بھی کریں۔

 ذمے دار افسران پولیس کے اداروں میں جرائم کی بیخ کنی کے لیے دستیاب ہیں اچھے بُرے لوگ سب جگہ ہوتے ہیں اور کوئی ادارہ بھی ایسے افراد سے پاک نہیں ہے لیکن ہمارا یہ رویہ بن گیا کہ برُے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگوں کی بھی کردار کشی سے باز نہیں آتے۔

 ہم جب تک معاشرے کے فرد کی حیثیت سے، قانون کی مدد کے لیے اداروں کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے تو ہمارے علاقے جرائم کے اڈے بنتے چلے جائیں گے۔اگر کسی ادارے میں کالی بھیڑ موجود ہے تو ان کے اوپر بھی افسران موجود ہیں جو ان کی کوتاہی پر فوری ایکشن لیتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں، تا کہ یہ ہماری آنے والی نسل کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ چونکہ منشیات ایک ناسور ہے اور اس کے خاتمے کے لیے عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔منشیات کی فروخت میں قانون نافذ کرنے والوں کا کردار بھی انتہائی مایوس کن ہے۔  جرائم پیشہ اور منشیات فروشوں کی سرپرستی میں علاقہ پولیس کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اسپیشل برانچ پولیس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ سندھ پولیس کے کرپٹ اور جرائم میں ملوث افسران و اہلکاروں کی نشاندہی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسپیشل برانچ پولیس کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بعض پولیس افسران جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں سرپرستی کرتے ہیں۔

منشیات کے اسمگلر غیر محسوس طریقے سے اپنی مارکیٹ بنا رہے ہیں جبکہ کراچی منشیات کا گڑھ بن رہا ہے۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان جلد روس کی طرح منشیات استعمال کرنے والا بڑا ملک بن جائے گا۔

 اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل غلام شبیر نریجو نے کہاکہ اس سال اے این ایف نے184 میٹرک ٹن منشیات قبضے میں لی تھیں اس میں سے آج 1800 میٹرک ٹن منشیات جلاد دی گئیں جس کی مالیت ایک ارب تیس کروڑ ڈالر بنتی ہے۔.

انٹی نارکوٹکس فورس چار طریقہ سے منشیات کے خلاف کردار ادا کررہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پالیسی بھی متعارف کرائی ہے کہ اگر کوئی طالب علم منشیات کے استعمال یا منشیات کے حوالے سے ملوث پایا گیا تو تعلیمی ادارے سے بے دخلی اور نا اہل قرار دیا جائے گا، اسی طرح تعلیمی اداروں میں طالب علمو ں سے حلف لینے اور ان کے ٹیسٹ کروانے کے بھی تجویز دی گئی۔والدین کو بچوں پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا جانا چاہے کیونکہ تھکاؤٹ اور نیند کی کمی کے باعث سکون آور ادویات  لینے سے بچے بتدریج منشیات کے گرداب میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ والدین کی جانب سے بچوں پر خصوصی توجہ انہیں بچا سکتی ہے اور آنے والی نسل کو مضبوط اور معاشرے سمیت ملک و قوم کے لئے کارآمد بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author