عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد کریں کتنی بار آپ نے اپنے چند جاننے والوں یا دوستوں کو یہ کہا ہو کہ جی میں تو بالکل خیریت سے ہوں مگر آپ کون بات کر رہے ہیں؟
اور اس کے بعد جب فون پہ کال کرنے والی شخصیت سے ماضی کا کوئی قریبی تعلق نکل آئے تو نہ پہچاننے پر مزید خجالت اٹھانا پڑتی ہے، یہ بھی کہنا پڑتا کہ ”بس پرانا موبائل خراب ہو گیا اس کے ساتھ ہی سارے نمبر ڈیلیٹ ہو گئے تھے ورنہ آپ کا نمبر تو سرفہرست تھا،کتنی بار بات بھی ہوئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے جو جھینپ محسوس ہو وہ الگ۔
ہم کروڑوں انسانوں میں بہت سے ایسے ہیں، جو فطری طور پر مجلسی طبعیت رکھتے ہیں، جنہیں لوگوں سے ملنا، باتیں بگھارنا، لطیفے سنانا، لمبے قصے گھڑنا، نئے دوست بنانا اچھا لگتا ہے۔ ایسے لوگ ہر کسی سے فوراً تعلق قائم کر لیتے ہیں اور ایسے افراد کو نئے لوگوں سے مل کر جھجھک نہیں آتی کہ کوئی ذاتی سوال کریں۔
جیسے کہ ٹرین یا جہاز میں سفر کے دوران، کسی تقریب میں اہم شخصیت سے ملاقات، دفتر یا محلے، رشتے دار یا تعلیمی ادارے کے دوست یار، جاننے والے یا پھر اب سوشل میڈیا کا حلقہ احباب۔ یہ سب وہ مواقع ہیں کہ انسان سماجی طور پر میل جول بڑھائے، اپنی پسند یا کبھی کبھی پسند کے بغیر بھی رابطہ بنائے۔
لوگوں سے ملنا آسان ہے، بات شروع بھی ہو ہی جاتی ہے، ایک بار بات شروع ہو تو بات سے بات نکلتے کچھ مشترکات بھی مل جاتی ہیں، دوستی نہ سہی جان پہچان تو انسان بنا ہی لیتا ہے جسے سرسری سا تعلق ہی سمجھ لیں۔
ہم نے اپنے وقت،جذبات، خیالات کی انوسٹمنٹ جس نئے تعلق کو بنانے میں لگائی ہوتی ہے کیا وجہ ہے کہ وہ پھر چل نہیں پاتے، کیوں لوگوں کی اکثریت اس پچھتاوے کو بہت مناتی ہے کہ فلاں صاحب، جو اب بڑے وزیر بن گئے، یونیورسٹی میں میرے ہم جماعت ہوتے تھے، اب پتا نہیں پہچانیں گے یا نہیں؟
کبھی غور کیا ہم میں کتنے ایسے ہیں، جو رابطے مسلسل جاری، تعلق ہمیشہ قائم، بات ہمیشہ چلتی رکھ سکتے ہیں؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عارف الحق عارف کہتے ہیں کہ یہ ایک آرٹ ہے، تعلق بنانا اور اسے قائم رکھنا ایک کُل وقتی، محنت اور وقت طلب شوق ہے۔
عارف الحق نے پچاس برس سے زیادہ جیو جنگ گروپ کے ساتھ گزارے، صحافت تو ان کے دیگر ہم عصر صحافی بھی کر رہے تھے مگر تعلقات کی جو پہنچ عارف صاحب نے بنائی، وہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس وقت عارف الحق عملی صحافت میں پہلے کی طرح نہیں بلکہ حال ہی میں پاکستان سے ہجرت کر کے امریکا جا بسے مگر ان کے موبائل میں ساڑھے سات ہزار ٹیلی فون نمبرز ہیں، فیس بک پر دوستوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ ساڑھے سات ہزار نمبر نہیں، وہ افراد ہیں، جن سے یہ گاہے بگاہے رابطے میں رہتے ہیں۔
ان ساڑھے سات ہزار افراد میں وزراء، وکیل، ججز، بزنس مین، صحافی، سیاستدان، ڈاکٹر، فوجی، پولیس والے، پلمبر، ڈرائیور، ڈیجیٹل ایکسپرٹ، ہر فرقے کے مولوی، ہر مدرسے کے مہتمم غرض مختلف شعبہ زندگی کا ہر وہ شخص، جس سے عارف الحق کا واسطہ پڑا ہو، ان کے رابطے میں ہے۔
میں نے پوچھا کہ اس لیول پر پبلک ریلیشن بنانا، چلانا اور انہیں زندگی بھر نبھانا کیسے کر لیتے ہیں؟ ہم سے تو دو چار دوستوں سے آگے بات ہی نہیں بڑھ پاتی۔
عارف صاحب کہنے لگے، ”لوگ پبلک ریلیشنز کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرتے ہیں میں نے اسی عملی طور پر سیکھا ہے۔ ایک تو خبر نکالنے کے لیے صحافی کو تعلقات بنانے پڑتے ہیں، دوسرا یہ شوق زندگی کے ہر موڑ پر میرے کام آیا۔ تعلق بنانے کے لیے بھرپور وقت چاہیے۔ سرسری تعلق کو گہرا کرنا ہو تو پیسہ بھی لگانا پڑتا ہے، دعوتوں کے دور چلتے ہیں، ملاقاتوں کے بہانے نکالنے پڑتے ہیں، بے وجہ کالیں کر کے لوگوں کی یادداشت میں زندہ رہنا پڑتا ہے۔‘‘
میں نے تعلق بنانے اور نبھانے میں ایک بار اپنے نکمے پن پر غور کیا اور پھر پوچھا کہ یہ کم کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی اپنے مزاج کے مطابق شخص ملے، جس سے تعلق بنانا بھی اچھا لگے، ہر کسی سے تو دوستی نہیں کی جا سکتی۔
جواب میں عارف صاحب گویا ہوئے، ”تو کون کہتا ہے کہ دوستی کرو، حلقہ ان کا وسیع ہوتا ہے، جن کا ظرف وسیع ہو۔عموماً لوگ ہمارے مزاج کے مطابق نہیں ملتے مگر یہی تو آرٹ ہے کہ ان سے بھی بنا کر رکھیں۔‘‘
پھر کہنے لگے، ”میرا ٹارگٹ ہے کہ میں روز دس افراد سے کال پر بات کر کے خیریت لیتا ہوں، مصروفیات پوچھتا ہوں، اپنی سناتا ہوں۔ جہاں کبھی نہیں گیا، وہاں کے بھی افراد سے رابطے میں ہوں، میں اپنے فون میں ابھی سوئیڈن لکھوں درجن نمبر آجائیں گے، جیو لکھوں گا تو جیو کے احباب کے نمبر، نام میرے سامنے ہوں گے۔ پہلے کے لوگوں کو تو کئی کئی ٹیلی فون ڈائریکٹریاں بنانی پڑتی تھیں، اب تو رابطہ ایک کلک کی دوری پر ہے، اب کیا مشکل؟‘‘
ہائے اب میں عارف صاحب کو کیا سمجھاؤں کہ جتنے زیادہ اور آسان رابطے کے ذرائع ہو گئے ہیں، اتنا ہی ہم آج کے انسان ایک دوسرے سے سماجی طور پر دور بلکہ الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ ہم وقتی تعلق بنانے اور پھر بھول کر آگے نکل جانے کے عادی ہو گئے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں فاطمہ ثریا بجیا کے ساتھ رہا کرتی تھی تو وہ کبھی کبھی یونہی کہا کرتیں کہ ڈائری میں سے حرف بی کی سیکشن میں جاو اور بدرالدین صاحب کا نمبر ملا کر دو! میں جو پوچھوں کہ بجیا یہ کون ہیں تو بتاتیں کہ کئی برس پہلے فلاں کالج کے ایڈمنسٹر ہوا کرتے تھے، یہ ہمارے گھر اپنا ایک کام نکلوانے آئے تھے۔ میں جو پوچھوں کہ بجیا ان سے اب کوئی کام ہے تو جواب ملتا کہ نہیں توبہ کرو بیٹا! کام نہیں بس خیریت اور بچوں کا پوچھوں گی۔
اب سوچیں ہم سے کتنے ایسے ہوں گے، جو کسی کام سے نہیں، بس حال احوال پوچھنے کے لیے غیر نہیں اپنوں کو ہی کال کرتے ہوں گے، ذرا سوچیں!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکاہے
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ