خالد نیازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی ادب میں کہانی کا تعلق، ” سات دریاوُں” کی سرزمین، سرایکی وسیب سے، ایسے جُڑا ہے جیسے ہریالی کا پانی دُھوپ اور زمین سے، خُوشبو کا پُھول سے، یا پھر، جیسے رُوح کا جسم سے، کیونکہ جسم کا وسیلہ نہ ہو تو رُوح ایک بے معنی Nothingness کا حوالہ بن جاتی ہے، جسم کے توسط سے ہی رُوح، رُوح کہلوا سکتی ہے ، جسمانی تجسیم ہی اِس کی شناخت ہے
رفعت عباس کے ناول "نمک کا جیون گھر ” کا تعلق بھی ایسا ہی ہے کہ جہاں تخلیق کار رفعت جی نے سرایُیکی وسیب کی ہزاروں سالہ تمدنی تہزیب کو فکشنلایُیز)fictionalise) کر کے، نہ صرف اِس کی تجسیم کی ہے، بلکہ بطورِ شاعر اسے لے، سُر، تال کی ہاف سلیو(Half Sleeve) شرٹ بھی پہنادی ہے۔ جگہ جگہ احساس ہوتا ہے کہ وُہ نثر کی بجاےُ نثری شاعری کو کمپوز کرتے جا رہے ہیں، آخر کو شاعر جو ہُوےُ۔
ناول کا اسلوبب (style) مکمل طور پہ جُداگانہ ہے کہ رفعت عباس نے اس میں لفظی ماتروں کا ایسا جادُو بھردیا ہے کہ پُوری کہانی میتھالوجی(Mythology) کی مہین چادر اوڑھے نظر آتی ہے، پڑھنے والے پہ فرضِ نماز ہو جاتا ہے کہ اوڑھنی میں سے طلُوع ہوتی آنکھوں میں جھانکے.
کارل مارکس نے کہا تھا کہ میں نے ہیگل کی Dialectics کو سر کی بجاےُ پاوُں پر کھڑا کر دیا ہے یعنی فلسفے پر سے الُوہیت کے آنچل کو نوچ ڈالا ہے، اسے زمینی لبادے کا پہناوا عطا کر دیا ہے۔
ناول "لُونڑ دا جیونڑ گھر” میں، رفعت نے بھی آسمانوں میں اُڑتی دیو مالا کو پکڑ کر زمین پر دے مارا ہے اور ایک ایسی نئ دیو مالا کی بُنت کاری کی ہے جسے میں(Neo Mythology) کا نام دُوں گا اور یُوں اُنھوں نے جادُوئ حقیقت نگاری کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے، ناول میں موجُود کہانی سے ایک نئ دیو مالا جنوائ ہے،
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر