نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور پھر ضمنی بجٹ آگیا||حیدر جاوید سید

ان دعوئوں کے برعکس تاریخی بجٹ نے عوام کا بھرکس نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب ضمنی بجٹ سے برپا ہونے والے مہنگائی کے طوفان سے عوام کیسے محفوظ رہیں گے، یہ بذات خود اہم سوال ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا کے مصداق بالآخر آئی ایم ایف برانڈ ضمنی بجٹ کی دودھاری تلوار چلاہی دی گئی جمعرات کو قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ پیش کئے جانے کے موقع پر حکمران اتحاد نے اپنی عددی اکثریت ثابت کردی۔ اپوزیشن بنچوں سے بل پیش کرنے کی مخالفت میں تین ارکان نے نفی میں ووٹ دیا جبکہ باقی ارکان اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
ضمنی بجٹ پیش کئے جانے کے بعد ایوان میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی اور تحریک انصاف کی غزالہ سیفی نے ایک دوسرے کو تھپڑ ماردیئے
شگفتہ جمانی کہتی ہیں بدتمیزی کا کیا جواب دیتی جبکہ غزالہ سیفی کا کہنا ہے یہ انپڑھ لوگ جانتے ہی نہیں کے اسمبلیوں کا وقار کیا ہوتا ہے غزالہ سیفی اندراج مقدمہ کے لئے درخواست بھی دے چکی ہیں ۔
گزشتہ روز کے اجلاس میں حکمران اتحاد کے 151 ارکان ایوان میں موجود تھے جبکہ 28ارکان غیرحاضر رہے۔ اپوزیشن کے 129ارکان حاضر اور 29غیرحاضر تھے۔
ہنگامہ آرائی کے دوران حکومتی بنچوں نے 7آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی منظوری دیدی جبکہ سٹیٹ بینک ترمیمی بل کمیٹی کو بھجوادیا گیا۔
سٹیٹ بنک ترمیمی بل آئی ایم کا فرمائشی پروگرام ہے یہاں جو اہم بات ہے وہ یہ کہ کسی ہنگامی صورت میں حکومت سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لے سکے گی ثانیاً یہ کہ اگلے مرحلے میں حکومت کو اپنی ضرورتوں کیلئے کمرشل بینکوں سے رجوع کرنا ہوگا جمعرات کو ضمنی بجٹ ایوان میں پیش کئے جانے پر متحدہ اپوزیشن اپنے اعلان کردہ احتجاج کے مطابق کردار ادا کرنے میں ناکام رہی
البتہ اپوزیشن کے پارلیمانی رہنمائوں نے اپنی تقاریر کے دوران سپیکر پر جانبداری برتنے کا الزام عائد کیا۔ حزب اختلاف کے پارلیمانی رہنمائوں میں سے اکثر نے اپنی تقاریر میں ضمنی بجٹ پر اظہار خیال کرنے کی بجائے ملک کی عمومی صورتحال اور دوسرے مسائل کو موضوع بنایا۔ البتہ اپوزیشن کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف نے سٹیٹ بینک ترمیمی بل پر کڑی تنقید کی۔ حکومت کی طرف سے اسد عمر اور دوسرے وزراء اس کا دفاع کرتے رہے۔
ہنگامہ آرائی، دھکم پیل اور تھپڑوں کی گونج میں منعقد ہونے والے اجلاس میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب سپیکر نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کو اظہار خیال کے لئے کہا تو اپوزیشن ارکان نے کورم کی نشاندہی کردی جس کےبعد اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی میں ضمنی بجٹ کے دفاع کے ساتھ میڈیا بریفنگ کے دوران بھی دعویٰ کیا کہ 343ارب کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے سے عام آدمی پر صرف 2ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ ضمنی بجٹ میں ڈبے کا دہی، پنیر، مکھن، کریم، دیسی گھی، پیکٹ میں بند چاول، سویوں، چاکلیٹ اور ٹافیوں پر اضافی سیلز ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے
جبکہ موبال فون کالز پر ٹیکس میں 5فیصد اضافہ کیا گیا۔ ادویات کے خام مال، برائلر مرغیوں وغیرہ پر سیلز ٹیکس میں اضافہ تجویز کیا گیا۔ پراپرٹی بزنس میں سرمایہ کاری پر انکم ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔
ضمنی مالیاتی بجٹ میں غیرملکی ڈراموں اور اشتہارات پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ غیرملکی ڈراموں پر فی قسط 10لاکھ روپے ٹیکس ہوگا جبکہ غیرملکی فنکاروں کے کمرشل اشتہارات پر 5لاکھ روپے فی سیکنڈ ایڈوائس ٹیکس ہوگا۔
ضمنی مالیاتی بجٹ پر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت نے عوام کو زندہ درگور کردینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ضمنی بجٹ درحقیقت عالمی مالیاتی ادارے کا ایجنڈا ہے۔ سٹیٹ بینک کی خومختاری کے ترمیمی بل کا دفاع کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوگا۔ ترمیمی بل کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں سادہ اکثریت سے قانون سازی ہوگی
کسی مرحلہ پر اگر یہ محسوس ہو کہ سٹیٹ بینک قانون سے تجاوز کررہا ہے تو پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے خومختاری کو ختم کرسکتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ضمنی بجٹ پر وزیر خزانہ سے سخت سوالات ہوئے۔ شوکت عزیز کو مشکل میں دیکھ کر وزیراعظم ان کی مدد کو آئے اور انہوں نے بعض سوالات کے خود جواب دیئے۔ ضمنی بجٹ پر بحث اور منظوری کے مراحل میں حزب اختلاف اپنے اعلانات اور دعوئوں کے مطابق اسے منظوری سے روک پائے گی یا بل پیش کئے جانے کے مرحلہ جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا
اس سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ وزیر خزانہ کے دعوئوں کے برعکس جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے اور ماضی میں دی گئی چھوٹ کے خاتمے سے مہنگائی کا نیا طوفان برپا ہوگا۔ 150 اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کے خاتمے اور اضافے سے نمک، دالیں، ڈبل روٹی، بیکری بسکٹ کیک ڈبے کے دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ کہہ دینا کہ ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا، محض خام خیالی ہی کہلائے گا۔
ادویات کے خام مال پر ٹیکسوں میں اضافے کی بدولت ادویات کی قیمتوں کا بڑھنا یقینی ہے۔ قابل غور امر یہ ہے کہ رواں سال کے مالی بجٹ کو پیش کرتے وقت وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بجٹ کو عوامی امنگوں کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے اعدادوشمار کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ امسال کا بجٹ تاریخی ہے اور ضمنی بجٹ کی ضرورت نہیں پڑے گا۔
ان دعوئوں کے برعکس تاریخی بجٹ نے عوام کا بھرکس نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اب ضمنی بجٹ سے برپا ہونے والے مہنگائی کے طوفان سے عوام کیسے محفوظ رہیں گے، یہ بذات خود اہم سوال ہے۔
غیرملکی ڈراموں، اشتہارات اور بعض دیگر چیزوں پر ٹیکس کا نفاذ بجاطور پر درست ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ نمک، ماچس، دالوں وغیرہ پر جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کا بوجھ عام آدمی پر بھی پڑے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ ایک ہی سانس میں دو باتیں کرتے ہیں اولاً یہ کہ ضمنی بجٹ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کی روشنی میں لازم تھا ثانیاً یہ کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا اور یہ کہ آج کا دن غریب آدمی کا دن ہے۔
عام آدمی کی وزیر خزانہ کے نزدیک تعریف کیا ہے کیا یہ عام آدمی دالیں، نمک، ماچس، سویاں اور چاول وغیرہ استعمال نہیں کرتا؟ اندریں حالات نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کیا جاسکتاہے کہ بل کی منظوری کے مرحلہ میں منتخب ارکان عوامی مفادات کو بہرصورت ملحوظ خاطر رکھیں۔
حرف آخر یہ ہے کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں ملک میں خاموش انقلاب آرہا ہے جبکہ ایف بی آر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ حکومت کو جی ٹی ایس میں چھوٹ واپس لینے کی قیمت چکانا پڑے گی ، فی الوقت تو عوام کہلاتی رعایا کو قمیت چکانی ہے زندہ رہنے کیلئے یہی تلخ حقیقت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author