نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست اور محبت کے حوالے سے بندہ بےبس بھی ہو جائے مگر انہیں کرتا بھی رہے گا، روتا بھی رہے گا کیونکہ ان کی لذتیں ہی الگ ہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے یہ دونوں کوئی عمل نہیں، محض چیلنجز ہیں۔ اقتدار کا موسم ہو یا بےدست و پا کے لمحات، ہر اگلا لمحہ مطالبات اور انکشافات کا کیونکہ دونوں کی ابتدائی چوائس آپ کی اپنی ہوتی ہے تاہم بعد میں آپ مفعول ہو جاتے ہیں اور یہ دونوں فاعل۔ کبھی کبھی ان دونوں معاملات میں کامیابی و کامرانی معنی نہیں رکھتی، جہد معنی رکھتا ہے!
جوں جوں الیکشن قریب آتا جائے گا نون لیگ کی سیاست میں تھرِل اور پیپلزپارٹی کی سیاست میں مفاہمت، تاہم پی ٹی آئی کی سیاست میں مداخلت کے دریچے کھلتے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی سیاست کے بہرحال اپنے مسائل اور فضائل ہیں لیکن نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے چیلنجز مختلف ہیں، نون لیگ کیلئے تجسس کا جمال اور ایکشن کا کمال مفید ہے لیکن پیپلزپارٹی کو کچھ بھی طشتری میں رکھ کر نہیں ملنے والا کیونکہ ان کے لوگ ان سے منہ موڑ چکے ہیں، گویا پیپلزپارٹی کو اس کے اپنے ہی لوگ منہ لگائیں، اس کے لئے پیپلزپارٹی کو خود روٹھوں کو منانا اور اپنے آپ کو منوانا ہوگا، پیپلز پارٹی کو مقتدر کی سپورٹ ملے یہ سب خواب و خیال تو ہو سکتا ہے، تعبیروں کا مسکن نہیں۔
نون لیگ کی سیاست کو دیکھیں تو یہ چیز رفتہ رفتہ واضح ہوتی جائے گی کہ شہباز شریف سیاست کا محور و مرکز ہیں اور مریم کا کردار صرف جلسے جلوسوںکے اہتمام اور انعام و اکرام تک محدود ہوتا چلا جائے گا، رہی بات بڑے میاں صاحب کی تو ان کی تصویر اور تشہیر ہی چلے گی۔ اب یہاں کوئی بےنظیر بھٹو نہیں جو کسی میثاقِ جمہوریت کو بیدار یا افتخار کے زمرے میں لائے گی، کوئی پاکستان کھپے والا اس استقامت میں نہیں کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے تیسری دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا در وا کرے۔ ذرا غور کریں تو سیاست آگے جانے کے بجائے بیک گیئر پر چلی گئی ہے، جسٹس ثاقب نثار کے قصوں سے جسٹس ملک قیوم کی کہانیاں پھوٹ پڑی ہیں، آج کے نیبی کرداروں میں رانا مقبول نامی پولیس افسر و سینیٹر اور سیف الرحمٰن کے رنگ و بو ملنے لگے ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کی نہج پر ہے۔ کچھ نیا نہیں، سب پرانا ہے!
وہی افغانستان، وہی مسئلہ کشمیر، وہی عالمی اداروں کی بالادستی ، وہی کبھی گیس نہیں تو کبھی بجلی کا فقدان اور پٹرول کا حصول مشکل، وہی کبھی چینی غائب اور آٹا محال۔ حتیٰ کہ وہی پیپلزپارٹی کے وزرائے خزانہ اور وزیر خارجہ، وہی مشیر اور وہی نشریاتی حشر نشر۔ ہاں تین چیزیں نئی آئی ہیں: (1) 90کی دہائی سے قبل غریبوں کو گھر اور ہاریوں کو زمینیں ملا کرتی تھیں، غریبوں کی کالونیاں بنانا بھٹو ازم کا امتیاز تھا مگر اب یہ سب بزنس ہے، حکومتی و غیر حکومتی اشرافیہ اسٹیٹ کے بجائے رئیل اسٹیٹ چلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ (2) چین عالمی افق میں ابھرا ہے اور پاکستان میں اس کا گیم چینجر سی پیک پروگرام۔ اب اس سی پیک کو ماہر معاشیات فلک بوس بناتے ہیں یا گِروی رہنے کا شکنجہ، اس کا پتہ اگلے عشرے میں چلے گا، اس میں حکومتی پالیسیوں اور ماہرین کا عمل دخل ہے، عام آدمی کا نہیں! (3) مولانا شاہ احمد نورانی ، مولانا عبدالستار نیازی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے عزم اور علم کی جگہ تحریک لبیک پاکستان نے ’’فضلِ ربی‘‘ سے لے لی ہے۔
سیاست کی نئی تابکاری میں لگتا یہ ہے کہ اگر لوگوں نے نیچرل فیکٹر کی طرف کا کوئی کھڑکی دروازہ کھلا نہ رکھا تو مذہبی سیاسی جماعتوں کا ایک ایسا اتحاد نمودار ہوگا کہ سب دیکھتے ہی رہ جائیں گے، بھلے ہی وہ ایم ایم اے کی طرح چار دن کی چاندنی ہی کیوں نہ ہو۔ پی پی پی، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کا مین اسٹریم سیاسی ٹرائیکا غور کرلے کہ علمائے کرام کا کس کس حلقہ میں جلوہ و حلوہ کیا کیا کچھ بدلنے کی قدرت رکھتا ہے؟ اہلِ نظر کو یاد ہوگا کہ پنجاب میں نون لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو تحریک لبیک پاکستان سے شماریاتی نقصان کتنا ہوا تھا، یہ نئے جوڑ توڑ ’’صاحبانِ کمال‘‘ کیلئے اس وقت مجبوری بنتے چلے جائیں گے، اگر شہباز شریف سے نزدیکیاں نہ بڑھیں اور تحریک انصاف کا مقبولیت کا گراف یونہی گرتا چلا گیا۔ کچھ پارٹیاں الیکشن سےکم و بیش ایک سال قبل بھی نمودار ہوتی ہیں جو کم عمر ہونے کے علاوہ نتیجہ خیزبھی نہیں ہوتیں مگر بڑے بڑوں کے نتائج بدل دیتی ہیں، انہیں نظریہ ضرورت کے تحت تراشا خراشا جاتا ہے۔
سیاسیات کا طالب علم ایک بات مدنظر رکھے کہ عُمر، تقویت اور نظریاتی و نیم نظریاتی اعتبار سے ایک پارٹی تاحال جمہوری اور دستوری نظر آتی ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی کہتے ہیں۔ نشیب و فراز اس کی راہ کا لازمی جزو رہے، اور رکاوٹیں بھی ہزار اس کے راستے میں آئیں، انتہائی مقبول ذوالفقار علی بھٹو کے بعد مقبولیت کا تسلسل بےنظیر کیلئے بھی چیلنج تھا پھر بی بی کی شہادت آصف زرداری اور بلاول بھٹو کیلئے بھی بڑا چیلنج تھا، پارٹیوں کو محفوظ اور سرگرم رکھنا آسان ہوتا تو کنونشن اور عوامی لیگیں یا تحریکِ استقلال و قاف لیگ کا نمایاں وجود ابھی ہوتا۔ عمران خان کے بعد پی ٹی آئی کا وجود بھی سوالیہ نشان ہی ہوگا۔ ’’نونیت‘‘ کا اثر بھی شاید دیرپا نہ ہو سکے۔ بہرحال سیاسی بزرگی میں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی ہیں اور پیپلزپارٹی کی طرح جیسے کیسے بھی ان کا وجود مستقبل میں دکھائی دیتا ہے!
آنے والے الیکشن 2023میں تحریک انصاف کی جیت کوئی سمجھے کہ محض دیارِ غیر والوں کے ووٹ یا ووٹنگ مشین سے ممکن ہے، تو یہ غلط فہمی ہے۔ نون لیگ کی ڈویلپمنٹ اور ان کی اپنی نااہلی پی ٹی آئی سے سیاسی دشمنی کے مترادف ہے۔ دوسری طرف مریم نواز جو کھاتے کھولے بیٹھ گئی ہیں وہ ان کا اپنا بھی کبھی خاصا تھا حالانکہ نون لیگ کے پاس ان کے ترقیاتی کاموں سے بڑا کوئی اور ہتھیار نہیں۔ بہرحال نون لیگ کو پیپلز پارٹی کی اشیر باد درکار ہے جیسے 2007/08میں درکار تھی اور ان حالات میں بہرکیف پیپلزپارٹی غیرمتحدہ اپوزیشن کا گولڈن آرم ہے کیونکہ قوتوں کیلئے مذہبی سیاسی جماعتوں کاآپشن چَوڑ چپَٹ کھلاہے!
بشکریہ:روزنامہ جنگ
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ