عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کی سرکار بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ قانونی و آئینی طور پر محکمہ معدنیات ایک صوبائی معاملہ ہے۔ جس کا فیصلہ صرف بلوچستان حکومت کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کمپنی کے حوالے نہیں کرسکتی۔
وفاقی حکومت نے ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی قومی ملکیت ریکوڈک منصوبے کو ٹیتھیان کاپر کارپوریشن نامی ایک غیر ملکی کمپنی کے حوالے کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اور یہ فیصلہ وہ بلوچستان میں اپنی بنائی گئی کٹھ پتلی حکومت سے کروارہی ہے۔ اسی لئے اسلام آباد سرکار ہمیشہ بلوچستان میں غیر مستحکم اور غیر سیاسی حکومت بناتی ہے۔ تاکہ وہ بلوچستان کی معدنیات کا سودا کرسکے۔ کیونکہ آٹھویں ترمیم کے بعد محکمہ معدنیات ایک صوبائی معاملہ بن چکا ہے۔
واضع رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریکوڈک منصوبے کو ٹیتھیان کاپر کارپوریشن کی حوالگی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قراردے کر معاہدے کی منسوخی کا حکم نامہ جاری کردیا تھا۔ جس پر کمپنی نے عالمی عدالت میں پاکستان پر چھ ارب ڈالر کے ہرجانے کے دعوےکا کیس دائر کردیا تھا۔ اس دوران حکومت نے کمپنی کے ساتھ ساز باز کرکے عالمی عدالت میں جان بوجھ کر اپنا کیس کمزور کردیا تھا۔ تاکہ فیصلہ کمپنی کے حق میں آجائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
عالمی عدالت نے معاہدے کی منسوخی پر پاکستان پر 5 ارب 80 کروڑ ہرجانے دینے کا فیصلہ کردیا۔ اور یہ بھی حکم دیا کہ فریقین تنازعہ کا حل آؤٹ آف کورٹ کرسکتے ہیں۔ اس فیصلے کے تناظر میں پاکستان حکومت نے پرانی شرائط کی بنیاد پر ریکوڈک کو دوبارہ کمپنی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
واضح رہے کہ ٹیتھیان کاپر کمپنی دنیا کی بڑی کان کن کمپنیوں میں سے ایک بیرک گولڈ کارپوریشن اور اینٹوفیگیسٹا کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس دفعہ ٹیتھیان کاپر کمپنی ایک نئے نام کے ساتھ ریکوڈک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ اس معاہدے کے دوران اربوں ڈالرز کی رشوت بھی لی جائےگی۔
اس تمام صورتحال کے بعد حکومت نے بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کا ان کیمرہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔ یہ اجلاس صرف ایک خانہ پری ہے۔ تاکہ ریکوڈک کے معاملہ کو ایک قانونی و آئینی شکل دے سکے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ہٹانے کے فیصلے کو ریکوڈک منصوبے کی حوالگی سے منسلک کیا جارہا ہے۔ کیونکہ جام کمال ریکوڈک کو دوبارہ ٹیتھیان کمپنی کے حوالے کرنے سے انکاری تھے۔ جام صاحب کو ہٹاکر ساڑھے چار سو ووٹ حاصل کرنے والے رکن بلوچستان اسمبلی میر قدوس بزنجو کو دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان بنایا جاتا ہے۔ تاکہ اس غلط اور غیر آئینی فیصلے کو قانونی شکل دی جاسکے۔
بلوچستان کے ایک سابق ایماندار وزیراعلیٰ نواب ثنااللہ زہری نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور حکومت میں انہیں ریکوڈک کو غیر ملکی کمپنی کے حوالگی پر اربوں روپے رشوت کی آفر ہوئی تھی۔ تاہم انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ آفر ٹھکرادی۔ اگر دو اور ایسے ایماندار اور مخلص وزیراعلیٰ بلوچستان کو مل جائیں تو شاید بلوچستان میں دودھ کی نہریں بہہنے لگیں۔
ریکوڈیک کے معاملے پر اسلام آباد نے ہمیشہ سے بلوچستان کے معدنیات کو بلوچ عوام کی مرضی و منشا کے بغیر بیرونی کمپنیوں کے ساتھ سودا بازی کی ہے۔ ریکوڈک کو دوبارہ ٹیتھیان کمپنی کے حوالے کرنے میں بلوچ قوم کی مرضی و منشا شامل نہیں ہے۔ تاہم کٹھ پتلی حکومت اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے بادشاہ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔
بلوچستان کی تاریخ میں صرف ایک مستحکم اور سیاسی حکومت بنی تھی جو صرف چند مہینوں کی مہمان رہی۔ سابق وزیراعظم زیڈ اے بھٹو نے نیپ حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ اس کے بعد آج تک جتنی بھی حکومتیں بنیں یا وہ مخلوط تھی یا وہ غیر مستحکم تھیں۔ آج کل تو راتوں رات پارٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ اور کٹھ پتلی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ تاکہ اسلام آباد کی سرکار جب بھی چاہے ان کے کان مروڑ سکیں۔
ایک اندازے کے مطابق صرف ریکوڈک کے مقام پر 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔یہاں معدنیات کی ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہوسکتاہے۔ ہمارے پالیسی سازوں نے ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکی شراکت داروں کو بیچاہے۔ ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔
بلوچ عوام کا شروع دن سے یہ مطالبہ ہے کہ ریکوڈک پر کام شروع کرنے کے لئے مقامی سطح پرعملدرآمد کیا جائے۔ معدنیات کو ریفائن کرنے کے لئےعلاقے میں ایک ریفائنری پلانٹ لگایا جائے۔ تاکہ معدنیات کو مقامی سطح پر پروسیس کیا جاسکے۔ ویسے بھی بلوچستان میں بے شمار بے روزگار انجینئرز موجود ہیں۔ وہ باصلاحیت انجینئرز ہیں۔ اس پروجیکٹ کو اچھے طریقے سے چلاسکتے ہیں۔ ان انجینئرز کو تربیت دینے کے لئے بیرون ملک سےصرف چار انسٹریکٹرز بلانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ بلوچستان کے انجینئرز کو ریفائننگ کے پروسیس کی تربیت دے سکیں۔ یہ ٹریننگ بھی چھ مہینے میں مکمل ہوسکتی ہے۔ مقامی سطح پر منصوبے کو بروئے کار لانے سے بلوچستان کو کھربوں ڈالرز حاصل ہوسکتے ہیں۔ مگر کیا اسلام آباد کی سرکار کو بلوچستان کی خوشحالی ہضم نہیں ہوگی؟۔ کیونکہ وہ چاہتی ہے کہ بلوچستان کے وسائل کا سودا غیرملکیوں کے ہاتھوں کیا جائے اور بھاری کمیشن سے وہ اپنی جیبیں بھر سکیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد سرکار کو کون آنکھ دکھا سکتا ہے؟۔ اس کے لئے پولیٹیکل ول (سیاسی ارادہ) کی ضرورت ہے۔ کیا بلوچستان میں بننے والی کٹھ پتلی حکومت میں سیاسی جرات موجودہے؟
ٹیتھیان کمپنی ریکوڈک کے مقام پر ریفائنری لگانے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ کمپنی چاہتی ہے کہ خام مال کو بیرونی ممالک ریفائن کرنے کے لئے بھیجا جائے تاکہ معدنیات نکالنے کا حساب کتاب چھپایا جائے۔ اس طرح کمپنی ایک ہزار ٹن سونا نکالنے کے بعد ایک سو ٹن حساب بتا سکتی ہے۔ اسی طرح کا حساب کتاب ضلع چاغی میں ایک چینی کمپنی سیندک کے منصوبے میں کررہی ہے۔ وہ خام مال ریفائن کرنے کے لئے چین بھیج دیتی ہے۔ جہاں وہ اپنی مرضی کا حساب کتاب بتاتی ہے۔ سیندک میں سونا، چاندی اور تانبا نکالنے کا کام گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک یہاں سے ڈھائی لاکھ ٹن تانبا اور ہزاروں کلوگرام سونا حاصل کیا جا چکا ہے۔ سیندک پراجیکٹ کے دیگر حصوں میں بلین ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق سیندک میں چھ سو کے قریب چائینز افسران اور ملازمین جبکہ دوہزار کے قریب دیگر ملازمین ہیں۔ جن میں مقامی ملازمین کی تعداد کافی کم ہے۔ مالی دولت سے مالا مال ضلع چاغی پاکستان کے پسماندہ ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں پینے کاپانی بھی میسر نہیں ہے۔ علاج کے لئے اسپتال نہیں ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں۔
بلوچستان کا ہر ضلع معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ تاہم چاغی کے
ریکوڈک اور سیندک پروجیکٹس میں کھربوں ڈالرز کے ذخائر موجود ہیں۔ان پروجیکٹس کو مقامی سطح پر بروکار لانے سے نہ صرف ضلع چاغی بلکہ پورے بلوچستان کے تمام اضلاع کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ بلوچستان حکومت مالی حوالے سے خود کفیل بن سکتی ہے۔ ہر ضلع میں بڑے بڑے اسپتالز، بڑی بڑی یونیورسٹیز سمیت واٹر سپلائی اسکیمز کے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔ زراعت کے شعبے کو فروغ دینے کے لئے بلوچستان میں بڑے بڑے بارانی دریا ہیں۔ جو پانچ سو کلومیٹر سے لیکر دو ہزار کلومیٹر تک طویل ہیں۔ جن میں دریا ہنگول، دریا بسول، دریا مولہ، دریا بولان، دریا پورالی، دریا کیچ، دریا رخشان، دریا ژوپ سمیت دیگر دریا شامل ہیں۔ ان دریاؤں پر بڑے بڑے ڈیمز بن سکتے ہیں۔ ان منصوبوں سے بلوچستان کی زراعت کو فروغ مل سکتا ہے۔ جہاں کپاس، گندم، چاول، سبزی، پھل سمیت دیگر پیداوار وافر مقدار میں ہوتی ہے۔ انہیں پانی کی فراہمی سے مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں لاکھوں ٹن کھجور کی پیداوار ہوتی ہے۔ اگر پانی کی قلت کو دور کیا جائے تو ان کی پیداوار بڑھ سکتی ہے۔ کھجور کی پیداوار کے لئے ایکسپورٹ پروسیسنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔ جبکہ ان ڈیمز سے بجلی کی پیداوار ہوسکتی ہے۔ یہ بجلی نہ صرف ملک کی ضروریات پوری کرتی بلکہ بجلی کو دیگر ممالک کو فروخت کرسکتے ہیں۔ آج ہم ایران سے بجلی خرید رہے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے جاری کچھی کینال مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آئندہ دس سے پندرہ سال میں بھی یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ کچھی کینال کی تکمیل سے نہ صرف ضلع کچھی بلکہ ضلع نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی اورجھل مگسی میں بھی خوشحالی آئے گی۔لاکھوں ایکڑبنجراراضی آباد ہوگی۔ اور بہتر فصلیں پیدا ہوں گی۔
ریکوڈک اور سنیدک پراجیکٹس سے بلوچستان میں فشریز کے شعبے کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی 700 کلو میٹر طویل ہے۔ ساحلی پٹی ضلع گوادر سے لیکر ضلع لسبیلہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ سونمیانی، کنڈ ملیر اورماڑہ، تاک، کلمت سمیت دیگر ماہی گیر بستیوں میں چھوٹی چھوٹی فش ہاربرز (بندرگاہیں) بنائیں جائیں۔ ریکوڈک اور سنیدک کے پیسوں سے پسنی فش ہاربر کی بحالی کا کام مکمل کیا جاسکتا ہے۔ جو کافی عرصے سے مٹی تلے دب چکا ہے۔ علاوہ ازیں ماہی گیروں کے لئے کولڈ اسٹوریجز کا قیام ضروری ہے۔ تاکہ سی فوڈ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوسکے اور وہ گوادر پورٹ کے ذریعے پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوسکے۔ جس سے ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوسکے گا اور ماہی گیر بھی خوشحال ہوں گے۔
مقامی سطح پر ریکوڈک اور سنیدک پراجیکٹس کو بروئے کار لانے سے بلوچستان میں انقلابی تبدیلی آجائیگی۔ بلوچستان کا قسمت بدل جائیگی۔ کیا بلوچستان خود کفیل صوبہ بننے سے اسلام آباد سرکار کو یہ عمل ہضم ہوگا؟ ہرگز نہیں!۔ اسی لئے بلوچستان میں ڈمی (جعلی) جماعتیں بنائی جاتی ہیں اور ان کی حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ اب بلوچ کو ایک فیصلہ کرنا ہوگا۔ کسی بھی صورت میں سیندک کے منصوبے کو چین سے واپس لیا جائے۔ اور ریکوڈک کے منصوبے کو غیرملکی کمپنی کے حوالے نہ کرنے کے لئے اپنی سیاسی حکمت عملی اپنانا ہوگا۔ کیونکہ ریکوڈک کے غیر ملکی کمپنی کے حوالگی سے بلوچ کی مرگ ہوگی۔ جبکہ ریکوڈک کو مقامی سطح پر چلانے سے انہیں امروز ملے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر