شاہدرند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سال دو ہزار اکیس کے اختتام پر بلوچستان کی سیاست میں ہم نے تبدیلی دیکھی، جام کمال کی حکومت کے خاتمے پر انکی جماعت کے قدوس بزنجو وزیر اعلٰی بلوچستان بن گئے یہ حکومت کیوں بنی کیسے بنی بنانے میں کس کی کیا سرمایہ کاری کیوں تھی یہ سب واضح ہے جب سے نئی حکومت بنی ہے ہر گزرتے دن کیساتھ یہ حقیقت عیاں ہو رہی ہے کہ جام کمال کو جو وجوہات بتا کر ہٹایا گیا مسئلہ ان وجوہات سے زیادہ کچھ اور تھا، ہر روز ہر حکومتی اقدام ایک نیا کارنامہ ہوتا ہے موجودہ حکومت کے اب تک کے سارے کارنامے ایک بات پر مہر ثبت کرتے ہیں کہ مل بانٹ کر کھائو پیو کی پالیسی چل رہی ہے، عوام کے اجتماعی مفادات کیلئے کوئی کارنامہ سر انجام دینے کا وژن نہ تو نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی امید ہے ، اسی لئے پچھلے منصوبوں پر تختی لگانے کاکام زور و شور سے جاری ہے ،دوسری جانب صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کی کابینہ میں سینیئر صوبائی وزراء کی تعداد اب چار ہوگئی ہے، میری دانست میں کسی صوبے نے آج تک اتنے سینیئر صوبائی وزیر نہیں لئے گئے ہونگے ،جتنے موجودہ وزیر اعلٰی قدوس بزنجو لے چکے ہیں سابق وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کے استعفٰی کے بعد بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت میں میر عبدالقدوس بزنجو نے تیس اکتوبر کو بلوچستان کے بائیسویں وزیر اعلٰی کے طور پر بلامقابلہ انتخاب کے بعد حلف اٹھایا، اسطرح اس حکومت کے دو ماہ مکمل ہوچکے ہیں ،اس عرصے میں جھولتی جھومتی سرکار اور کار سرکار شدید کنفیوژن سے دوچار ہیں، وزیر اعلٰی ہائوس دن چڑھے تک منہ چڑا کر سویا رہتا ہے ، سہہ پہر کے بعد سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں ،جب سول سیکریٹرٹ میں بیورو کریسی تھکی ہاری چھٹی کر کے جانے کی تیاری کرتی ہے تو پھر وزیر اعلٰی ہائوس میں کام کا آغاز ہوتا ہے اور پھر رات گئے تک یہ سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ جسکے نتیجے میں پچیس دسمبر کو زیارت ریذیڈنسی میں وزیر اعلٰی کی غیر حاضری لگی تاہم حکومت ایسی تمام افواہوں کو مسترد کرکے خراب موسم میں ہلی کاپٹر نہ جانے کو بنیاد بتاتی ہے، ویسے میڈیا مینجمنٹ ٹیم بیچاری بڑی بری پھنسی ہے کبھی کابینہ کی سو فیصد حاضری کی خبر جاری کرواتی ہے تو کبھی ترقیاتی اسکیموں کے فنڈز کے اجراء پر پابندی ختم کئے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کرکے صورتحال کو بہتر دکھانے کی کوشش کرتی ہے ،میڈیا مینجمنٹ کی ذمے داری جس افسر کے کندھوں پر ہے انہیں محکمہ تعلقات عامہ کا گوہر نایا ب گردانا جاتا ہے صوبے کی تحصیل سے لیکر زرغون روڈ تک ہر محکمے میں ایڈیشنل چارج لک آفٹر چارج کی بھرمار نظر آرہی ہے۔لیکن ایک انقلاب نظر آتا ہے ،جہاں سول سیکریٹریٹ وزراء اور اپوزیشن اراکین ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دفتر پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ایک سینیئر بیوروکریٹ نے انکشاف کیا کہ سابق وزیر اعلٰی بلوچستان جام کمال کیلئے مشہور تھا کہ وہ خود سر ہیں کسی کی نہیں سنتے نہ کسی سے ملتے ہیں لیکن کم از کم بیوروکریسی اب یہ اعتراف کرتی ہے کسی میٹنگ میں جانے سے پہلے افسر کو ایجنڈا آف دی ڈے کو ایک بار دیکھ کر اور چند پچھلی میٹنگوں کا ہوم ورک کرکے جانا پڑتا تھا اور کسی محکمے کے اجلاس کے دوران متعلقہ افسران یکسوئی سے بریفنگ دیتے آجکل ایسی کوئی بریفنگ یا اجلاس نہیں ہوتا ،جہاں منصوبہ بندی بیس اور پچاس سال کو بنیاد بنا کرکی جاتی ہو کیونکہ حکومت جب سو کر اٹھتی ہے تو اسکے بعد وزراء اراکین اسمبلی اور دوست یار وزیر اعلٰی ہائوس پہنچ جاتے ہیں، کوئی وزارت کے حصول میں کوشاں ہے وزارت نہیں تو مشیری یا پھر پارلیمانی سیکریٹری کا عہدہ ہی کیون نہ ملے اکتفاء کرلیتے ہیں، باقی ماندہ اراکین یا فرینڈز کلب کو ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر سے لیکر اساتذہ تک بدلوانے ہوتے ہیں ،رہ جانے والے ٹھیکوں کی تلاش میں رہتے ہیںکیونکہ سائوتھ بلوچستان پیکج کے منصوبوںکے فیصلوں پر کچھ حکومتی حلقے انگشت بدنداں بیٹھے ہیں ،انویسٹرز حیران ہیں کہ یہ کیا ہوا دوسری جانب جہاں وزراء اور اراکین کی خواہشات کی فہرست طویل ہے ،وہیں اس فہرست میں اصول اور نظریاتی سیاسی سوچ رکھنے والی اپوزیشن بھی امید سے ہے اور روز تبادلوں اور تقرریوں کی فائلیں لیکر سیکریٹریٹ کا طواف کرتی نظر آتی ہے، ایسی ہی خواشات قائد ایوان کی چیف سیکریٹری کے متعلق بھی ہیں تاہم وفاقی حکومت نے انکے تبادلے کی درخواست کی فائل دبا لی ہے جسکے نتیجے میں چیف سیکریٹری تبدیل نہیں ہوئے۔ اسلام آباد میں تیسرے آئینی عہدے پر موجود بلوچستان کی اہم شخصیت کی خصوصی دلچسپی سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو کی تقرری میں تھی اور بتایا جاتا ہے اس عہدے پر اپنی مرضی کی تعیناتی کیلئے تگ و دو کرنے والے چاغی ڈاکٹرائن کے موجد سے چند روز قبل وزوزیر اعظم نے استفسار کرکے تنبیہ کی کہ وہ کیوں ایک افسر کی تعیناتی میں انکا نام لیا جارہا ہے جس پر اس شخصیت نے وزیر اعظم کو جواب دیا کہ جلد آپکو صورتحال سے آگاہ کرونگا ،اب وزیر اعظم کو مطمئن کیا یا نہیں لیکن سینیئر ایم بی آر کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا ہے اب دیکھتے ہیں کوئٹہ ، چاغی سے گوادر تک کس کے کیا مفادات ہیں کیا وزیر اعظم عمران خان اس میں شریک ہیں یا لاعلم ہیں اسکی وضاحت تاحال رہتی ہے۔ جام کمال سے بغاوت کرنیوالے آدھے اراکین اب یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ غلطی ہوگئی نیا قائد ایوان یا تو ظہور بلیدی کو بنایا جاتا یا پھر سردار صالح بھوتانی کو بنایا جاتا تو بہتر تھا ۔ویسے یہ دونوں حضرات بھی سوچتے ہیں غلطی ہوگئی جبکہ قدوس بزنجو کے قریب موجود گروپ آف سکس کے کچھ جام کمال کے قریب سمجھے جانے والے حکومتی اراکین کو یہ منت ترلے کرنے میں مصروف رہتا ہے کہ بس یار اب جو بھی ہے یہی ہے گزارہ کرلو لیکن کیا کریں مقابلہ ہے سابق وزیر اعلٰی جام کمال کے طرز حکمرانی سے جسے قدوس بزنجو اور انکی ٹیم ناکام قرار دیکر بغاوت پر اتری تھی جسکے نتیجے میں بلوچستان کی عوام نے حکومت کی تبدیلی کا منظر دیکھا جام کمال کو وزیر اعلٰی ہائوس سے نکالنے کیلئے جو کوششیں قدوس بزنجو اور انکے گروپ نے جام کمال کے انتخاب کے دن سے شروع کی تھی بالآخر تین یا سوا تین سال بعد انہیں کامیابی ملی۔
یہ بھی پڑھیے:
بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند
گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند
پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ڈیلی آزادی کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر