دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیکھ بہاریں جاڑے کی||رضاعلی عابدی

صاحب حیثیت گھرانوں کی شان ہی نرالی ہوتی تھی۔ جاڑوں کی صبح، سورج نکلنے سے پہلے میتھی کی کھچڑی کھائی جاتی جس کے بارے میں طے تھا کہ سورج نکلتے ہی کڑوی ہوجاتی ہے۔اس کے لئے پورے پورے خاندان منہ اندھیرے جمع ہوتے اور دھوم مچاتے۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاڑے آگئے۔ اس میں حیرت کس بات کی۔ اُن کا کام ہی تھا آنا سو آگئے۔مگر اس بار کچھ اور ہی چھب ہے ان کی۔دانت بھینچ کرآئے ہیں۔ کچھ ایسی بے نیازی سے آئے ہیں کہ نہ غریب کی پروا ہے نہ مفلس کی۔ اگر کسی کو تن ڈھانپنے کو کچھ نصیب نہیں تو جاڑوں کو کیا پروا اور اگر کوئی کمبل، کوئی رضائی یا کوئی لحاف کسی کے قریب بھی نہ پھٹکا ہو تو انہیں کیا۔ جاڑوں کا کام ہے رگوں میں خون جمانا سو وہ جمائے جارہے ہیں۔میں ایسے گھروں کو جانتاہوں جہاں گھر والے ایک دوسرے سے چمٹ کر سوتے ہیں۔ نہ چمٹیں تو سردی کی ماری نیند نہ آئے۔میںایسے علاقوں سے واقف ہوںجہاں لوگ اپنے چوپایوں کو اپنے کمروں میں باندھتے ہیں تاکہ ان کی ناک سے نکلتے بھاپ کے بادل کمرے کو گرم رکھیں۔

میری طرح جن لوگوں نے گزرے زمانے دیکھے ہیںوہ اگر میری ہی طرح سوچیں تو ایک عجب خیال آتا ہے۔ وہ یہ کہ لوگوں کی زندگی سے لطافت نکلتی جارہی ہے۔ وہ جو ہر بدلتے موسم کا کسی نا کسی شکل میں جشن منا لیا کرتے تھے، وہ سارے سلسلے موقوف سے ہوئے جاتے ہیں۔ مجھے ذرا ذرا سی تفصیل یاد ہے۔جوں ہی موسم اپنا چولا بدلتے، رُت اپنی رنگت تبدیل کرتی، ہوا کے رخ بدلتے، موسم کی ادا بدلتی، لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور موسم کی نئی چال سے اپنی چال ملا کر نئے موسم کا جیسا بھی ممکن ہوتا، جشن منایا کرتے تھے۔ وہ دھوم دھام وہ رونقیں، وہ چہل پہل، وہ جھولے وہ گانے وہ کھانے وہ پکانے سب دھندلے سے پڑتے جارہے ہیں۔یہ تو کچھ مردنی سی کیفیت ہے۔ کاش نہ ہوتی۔

میں اُن جاڑوں کو کیسے بھلادوں جب بازار میں گنّے آجاتے تھے اور ملائم گنّوں کو بچّے اور بڑے اپنے دانتوں سے چھیل کر گنڈیریاں چوسا کرتے تھے۔اس کے ساتھ گاؤں دیہات میں گنّے کے رس کے کڑھاؤ چڑھ جاتے تھے۔ فضا میں گڑ کی سوندھی خوش بو رچ جاتی تھی۔بازار میں تازہ گڑ آجاتا ساتھ ہی ریوڑیا ں اور پھر تل کے لڈو آتے اور تل اور کھوئے کا وہ حلوہ آتا جسے تل بُگا کہتے تھے۔وہی دن ہوتے جب غریبوں کا مرغوب خشک میوہ دھوم مچاتا آتا اور نو عمر لڑکے مونگ پھلی کی جھولی اٹھائے بازاروں میں آجاتے اور جھولی کے اندر انگاروں سے بھری ہانڈی رکھی ہوتی تھی۔ کتنے ہی لوگ بھڑ بھونجے کے بھاڑ پر پہنچ جاتے اور گرم گرم چنے بھی خریدتے۔ جاڑے منانے والے گھروں میں جاڑوں کا پکوان دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ نہایت گرم کھچڑی، اس کے اوپر گاؤں کا اصلی گھی، بچوں کے لئے گرم یخنی اور مٹھاس کے خواہش مندوں کے لئے گڑکے اوپر گاّں کاگھی اور اس کے ساتھ گر م پھلکے یا چپاتی جس کے لقمے کے اندر گھی پگھل کر عجب لطف دیتا تھا۔ ان ہی دنوں گنے کے رس اور چاول سے رساول پکتا تھا۔یہ عام طور پر گاؤں دیہات میں مٹی کی ہانڈیوں میں پکایا جاتا تھا، اس میں کشمش اورناریل بھی ڈالا جاتاپھر ہانڈی کے منھ پر کپڑا باندھ کر اسے رات بھر اوس میں رکھا جاتا اور صبح ٹھنڈی بالائی کے ساتھ کھایا جاتا۔ ر ساول ہر امیر غریب گھرانے میں شوق سے کھایا جاتاتھا۔ گڑ پر یاد آیا اس سے گڑ اور آم کا گڑمبا بھی بنتا تھا ۔ اس کے لئے کچی کیریوں کا انتظار کرنا پڑتا۔یہ تو ہوا ہم جیسے متوسط لوگوں کے جاڑوں کا جشن۔

صاحب حیثیت گھرانوں کی شان ہی نرالی ہوتی تھی۔ جاڑوں کی صبح، سورج نکلنے سے پہلے میتھی کی کھچڑی کھائی جاتی جس کے بارے میں طے تھا کہ سورج نکلتے ہی کڑوی ہوجاتی ہے۔اس کے لئے پورے پورے خاندان منہ اندھیرے جمع ہوتے اور دھوم مچاتے۔ مگر اصل دھوم اس صبح ہوتی جس صبح رات بھر پکنے والی شب دیگ کھولی جاتی۔مسالوں میں بسا شلجم اور گوشت کا سالن یوں مہکتا کہ پورے علاقے کوخبر ہوجاتی۔ پھر ساتھ ہی تنور سے خمیری روٹی نکلتی جاتی اور ایک آن میں چٹ ہوتی جاتی۔ کہتے ہیں کہ سالن کے اوپر ہرا دھنیا نہ چھڑکا ہو تو اس کا لطف آدھا رہ جاتا ہے۔یہی عالم نہاری کا ہوتا اور یہی کیفیت سری پائے کی ہوتی۔ سوچئے کہ دیگ کے اندر بہترین گوشت پک رہا ہو جس کے نیچے بھی اور اوپر بھی انگارے دہک رہے ہوں اور رات بھر کے بھوکے اہل و عیال بے صبری سے دیگ کھلنے کے منتظر ہوں۔

اب اس بحث میں کون پڑے کہ یہ سارا میلہ اٹھ کر کہاں چلا گیا۔ وقت کے ساتھ ہرچیز بدلتی ہے۔ پھر اس کی جگہ کوئی نئی شے آتی ہے۔ مگر اب وہ پہلے جیسا روپ رنگ کہاں۔سچ تو یہ ہے کہ وہ سُکھ چین کے دن تھے۔ فراغتیں تھیں، فرصتیں تھیں، آسودگی تھی اور سب سے بڑھ کر کنبے اور خاندان بندھی مٹھی کی طرح آباد تھے۔ دکھ میں بھی شامل، سُکھ میں بھی شریک۔ دھوم مچارہے ہیں تو سارے مل کر،دکھ جھیل رہے ہیں تو ہاتھ میں ہاتھ دے کر۔ وقت کیسا بدلا ہے اور ابھی کیسا بدلے گا۔ کون جانے۔

اردو کے سب سے بڑے عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے، جو 1830ء تک جئے،اپنے زمانے کے جاڑوں کی تصویر کھینچی۔ انہوں نے اپنے وقت کا معاشرہ دیکھا۔سارے عیش و عشرت بیان کرکے ان کی تان اسی فقرے پر ٹوٹی کہ’تب دیکھ بہاریں جاڑے کی‘۔کیسا وقت رہا ہوگا کہ اکبر آباد میں جاڑا پڑتا ہوگا اور پیالے ہوتے ہوں گے اور رقص وسرود کی محفلیں ہوتی ہوںگی۔ہمارا وقت اور ہے، ہمارے عیش و عشرت کے تقاضے گرم مونگ پھلیوں اور بھاپ اٹھتی ہوئی کھچڑی سے پورے ہوجاتے ہیں۔ رساول مل جائے اور خستہ گزک نصیب ہو۔ہمارا کام چل جائے ہم سمجھیں گے ہمارے ارمان پورے ہو ئے۔ بقول نظیر :

سب عیش مہیا ہو آکر جس جس ارمان کی باری ہو

جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

About The Author