شاہدرند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیس نومبر کو وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ جو چاہئں گے وہ ہوگا۔ ویسے ملکی سطح پر وزیر اعظم عمران خان اور بلوچستان سے صادق سنجرانی قسمت کے دھنی ہیں۔ گزشتہ چند سال میں ان دو شخصیات نے ثابت کیا کہ وہ جو چاہئں گے وہ ہوگا، اور ہوتا بھی رہا ہے۔ اس بار حیرانی کی بات کیا ہے؟ میرے لئے ایک بات حیران کن ہے جسے کوئی سمجھے یا نہ سمجھے مجھے اس بار اپوزیشن بڑی مطمئن نظر آئی ۔ حکومت کی طرف سے حالیہ قانون سازی کیلئے جب جوائنٹ سیشن پہلی بار بلایا گیا تو اتحادیوں نے ایسے سینگ اڑائے جیسے اس بار انہوں نے اس اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے بعد اپوزیشن اور بہت سے اہل علم حلقوںکو جوائنٹ سیشن میں یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کا ایکشن ری پلے نظر آرہا تھا ۔ اجلاس موخر ہوا پھر کچھ ایسا ہوا کہ ناراض اتحادی بھی مان گئے اپوزیشن بھی پہنچ گئی حلقی پھلکی موسیقی کیساتھ حکومت نے وہ تمام قانون نہ صرف پیش کئے اور منظور بھی کروالئے۔ اب اسکے بعد شہر اقتدار اسلام آباد سمیت ملک بھر میں کنفیوژن ہے کہ کیا جس صفحے کے تقسیم کی باتیں ہورہی تھیں کیا وہ پھر سے جڑگیا ہے۔ ان بلز کی منظوری کیسے ہوئی اگر صفحہ پھٹ چکا ہے تو کیسے ناراض اتحادی مان گئے ۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے چند ایسے بلز کی منظوری کو اپنے من پسند بلوں کی منظوری سے مشروط کردیا تھا کہ یہ بلز منظور ہونگے تو دیگر بلز بھی منظور ہونگے۔ بحر حال وزیر اعظم عمران خان نے مقتدرہ کی ہر خواہش کا الٹ کام کیا ،عثمان بزدار کو وزیر اعلٰی پنجاب بنانے سے لیکر جام کمال کو بلوچستان کی وزارت اعلٰی سے نکالنے تک عمران خان نے اپنی ہر بات منوائی یہاں تک کہ ہر اس کام کو جسے آسانی سے کیا جاسکتا تھا بلاوجہ نان ایشو کو ایشو بنا کر ماحول بنائے رکھا اگر ایسا ہی ماحول ماضی قریب کی کوئی حکومت یا دوسری کوئی سیاسی جماعت بناتی تو اسکے ساتھ جو ہوتی اسے ہم سب دیکھتے لیکن عمران خان کے متعلق یہ ماننا پڑیگا کہ ابھی تک وہ ویسے ہی پاور فل کپتان ہیں۔ جیسے کرکٹ ٹیم کے تھے جہاں وہ ٹیم سلیکشن میں مداخلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اب بھی نہیں کرتے ،اسہی لئے تو میرے عثمان بزدار ابھی تک پنجاب کے وزیر اعلٰی ہیں۔ یہاں تک کہ سنجرانی فارمولے پر مقتدرہ کے پسندیدہ وزیر اعلٰی جام کمال کو گھر بھیج چکے ہیں بلکہ نہ صرف انہیں گھر بھیجا انکے حمایتی اپنی جماعت کے بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو وزیر اعظم ہائوس بلا کر تسلی دی اور اگلے دن انہیں بلوچستان کابینہ میں نام لیکر پیغام دیا کہ تحریک انصاف میں انکے علاوہ کوئی مضبوط نہیں ہے او ر بلوچستان کیلئے جو سنجرانی سوری مشورہ دینگے ویسا ہی ہوگا۔ پچھلے ساڑھے تین سال میں ٹیم سلیکشن میں کپتان نے ٹیم مینجمنٹ سمیت کسی کی نہیں سنی۔ جسے آزما رہے آزمائے ہی جارہے ہیں۔ اس عرصے میں ان کے کام میں ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی نتائج دینا اب انکی زمے داری ہے۔ لیکن اس ورلڈ کپ کی طرح کوئی بڑی کامیابی ابھی تک کپتان کے حصے میں نہیں آئی سونے پہ سہاگہ اب پچھلے دنوں کپتان نے ٹیم مینجمنٹ کے کاموں میں براہ راست جو مداخلت کی ہے اسکے نتائج کیا ہونگے ابھی اسکا فیصلہ ہونا ہے ۔ ماضی کے حالات بتاتے ہیں ایسی کسی حرکت کو ٹیم مینجمنٹ نے کبھی اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا اور جب کبھی کپتان کو ٹیم مینجمنٹ کی ضرورت پڑی تو ٹیم مینجمنٹ نے ہاتھ کھڑے کردینے ہیں کیونکہ ٹیم سلیکشن سے لیکر ہر معاملے میں اپنی ضد منوانے والے کپتان نے اگر تو نتائج دیئے ہوتے تو ہیرو رہتے بغیر نتائج کے ٹیم مینجمنٹ اس کپتان کا دفاع جاری رکھے گی اسکا امکان کم ہے۔ یہی سوچ کر اپوزیشن ہر بار امید اور آسرے پر میدان میں اتر کر کپتان کے بائونسر کھاتی ہے لیکن پل شاٹ نہیں کھیلتی کیونکہ اسے ڈر لگتا ہے کہ بائونڈری پر کیچ نہ ہوجائے لیکن اگر اپوزیشن نے کسی بائونسر کو ایسے ڈیل کیا جیسے سید یوسف رضا گیلانی کے انتخاب کو ڈیل کیا تھا تو پھر کیا ہوگا ؟؟ اپوزیشن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ روز اول سے ان کے ٹارگٹ فوکس نہیں ہے اگر ان کا ہدف وزیر اعظم عمران خان کو نکالنے پر ہوتا تو چند ہفتوں یا مہینوں میں یہ حکومت گھر جاچکی ہوتی۔ کیونکہ اپوزیشن کی ہر چھوٹی بڑی جماعت نے پی ڈی ایم کی چھتری تلے اپنے حصے کی ڈیل تلاش کی تو اس ریلیف کے بدلے وزیر اعظم عمران خان کو ریلیف ملتا رہا اب اپوزیشن چند ہفتے اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھے گی اگر کوئی گرین سگنل ملا تو ٹھیک بصورت دیگر مارچ کے بعد ڈبل مارچ اور پارلیمان میںعدم اعتماد لاکر ہیجان بپا کریگی اگر ایسے میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کیخلاف دائر انتخابی عزرداری کا فیصلہ عدالت نے سنا دیا تو سوچیں کیا ماحول بنے گا۔ ایسا پوزیشن سوچتی ہے لیکن اس سب کیلئے اپوزیشن بالخصوص پی ڈی ایم کی جماعتیں پہلے مائنس عمران پر متفق ہوں اور پھر کوئی لائحہ عمل بنائیں بصورت دیگر اپنی اپنی ڈیل کی تلاش میںاپوزیشن جماعتوںکو کپتان ہر دوسرے اوور میں بائونسر مارتا رہیگا اور اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا ۔اگر اپوزیشن اس نظام سے چھٹکارے کی خواہش مند ہے تو میدان میں اترے پہلے سینیٹ جہاں اکثریت اپوزیشن کی ہے اسے ثابت کرے صادق سنجرانی کو گھر بھیج کر اپنا چئیرمین بٹھائے پھر اسکے بعد کسی مہم جوئی، چاہے وہ لانگ مارچ ہو یا استعفیٰ ان آپشنزپر غور کرے ۔اگر اپوزیشن سینیٹ میں کچھ نہیں کرسکتی تو فی الحال مارچ تک سردیوں میں عوام کو نکالنے کا فیصلہ بھی دانشمندی نہیں ہوگی ۔ آڈیو ویڈیو لیکس سے ہیجان تو بپا کیا جاسکتا ہے ریلیف نہیں مل سکتا اس ریلیف کیلئے قانونی عدالت آئینی فورم پارلیمان اور عوامی عدالت سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ اسکے بغیر مقصد کا حصول دیوانے کا خواب ہی رہے گا ۔اب ایسے حالات میں حکومت کھیل ختم یا اپوزیشن کا کھیل شرو ع اسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اب دیکھتے ہیں اپوزیشن’’ سجا دکھا کر کھبا مارتی ہے یا کھبا دکھا کر سجا‘‘۔ چاہے چئیرمین سینیٹ ہو یا وزیر اعظم کسی ایک کیخلاف عدم اعتماد کا آپشن اب اپوزیشن کو استعمال کرنا ہوگا بصورت دیگر اپنی اپنی ڈیل کی تلاش میں اپوزیشن کی جماعتوں کو کچھ نہیں ملا گا ۔
یہ بھی پڑھیے:
بلوچستان عدم اعتماد کی کہانی۔۔۔شاہد رند
گوادر کی ریت یا سونا اور بلوچی قول۔۔۔شاہد رند
پنوں کی سرزمین اور پانچ کلو میٹر کا ویژن۔۔۔شاہد رند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ :روزنامہ 92نیوز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر