اشفاق لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شروع کرتا ہوں اس کا نام لیے بغیر جس کی ذات اپنی فردی پہچان، خودمختاری، اور بغیر کسی امتیاز کے سماج میں اپنے مقام کا حق لینے کی جد و جہد میں مصروف ہے۔ جی بالکل میرا اشارہ اس ذات کی طرف ہے تمام گالیاں، تقریباً لطیفہ اور اکثر خطبات جس کی ذات سے منسوب کیے گئے ہیں۔
ہم سب ڈاٹ کام ٹیم کی دریافت کی گئی ایک اور بری عورت کی اچھی باتوں کا تذکرہ آگے چل کر کرتے ہیں۔ پہلے ملاحظہ فرمائیے ان کا تعارف وہ بھی ان کی زبانی ”بھائیوں اور شوہر نے حتی المقدور کوشش کے ہم چھوئی موئی بن کے آنکھیں جھکا کے اور گونگے کا گڑ کھا کے زندگی کی اونچ نیچ سے گزر جائیں لیکن ہم وہ کیسے بن سکتے تھے جس کا خمیر اللہ کی طرف سے عطا نہ ہوا۔ سو ان کی خرابی قسمت کے سادات خاندان میں ایک کالی بھیڑ آ دھمکی“
دور حاضر کی اردو میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اس نڈر لکھارن کا نام ہے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی۔ پہلی بار وہ ہم سب کے لیے کچھ ”کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ لے کر آئی اور اس بار ”مجھے فیمینسٹ نہ کہو“ کے عنوان سے 272 صفحات کا دوزخی زیور لے کر آئی ہیں۔ جو سانجھ پبلیکیشنز، لاہور والوں نے دنیا والوں تک پہنچائی ہے۔
طاہرہ کام اور ڈگری کے اعتبار سے تو امراض نسواں کی ڈاکٹر ہیں مگر ان کی تحریریں مردوں کے ذہنی، جنسی، لسانی اور استحصالی مرضوں کا بھی خوب احاطہ کرتی ہیں۔ ڈاکٹر نے عورت سے پہچان یعنی نام تک کا حق چھن جانے سے اپنی بات شروع کی ہے اور مرد کی گھر سے لے کر معاشرے میں ہر جگہ قائم بدصورت حکمرانی اور رویوں کا دبنگ انداز میں مشاہدہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر کی تحریر میڈیکل، سماجیات اور مطالعہ صنف کی چھانی سے گزر کر بننے والا ایک پرکشش ادبی شاہکار ہے۔ ڈاکٹر طاہرہ روزانہ زندگی کی نوٹس میں نے آنے والی ایسی ایسی مثالیں اپنی تحریروں میں بینظیر طرز میں پیش کرتی ہیں کے پڑھنے والا/والی/ ٹرانس اور باقی لوگ چونک جاتے ہیں۔ یہ ہی خیال سب کے ذہن میں آتا ہے کے ایسا بھی کسی کا مشاہدہ اور بولڈ طرز تحریر ہو سکتا ہے۔
اپنے طرز بیان میں وہ کلاسیکل اردو شعراء کی زمین استعمال کرتی ہیں۔ کبھی سودا، کبھی نظیر اکبر آبادی اور کبھی میر و غالب کا قالب استعمال کرتی ہیں۔ ان کی تحریر صرف ماتم نہیں، وہ صرف عورت کا کیس بھی پیش نہیں کرتی۔ وہ کوئی بینر ہاتھ میں نہیں اٹھاتی، وہ دیوار کا لکھا پڑھنے کی بھی کسی کو تکلیف نہیں دیتی۔ وہ سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاتی ہیں اور ان کندھوں پر آئینہ لے کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس آئینے میں پھر ہوتی ہیں مجھ جیسوں کے بدصورت چہروں کی جھلکیاں۔
ذہنی، سماجی، لسانی، جنسی اور صنفی امراض ڈاکٹر کے مرکزی موضوعات ہیں۔ اردو ادب میں شہاب نامہ والے تمام بابوں کے بابے نے عورت دشمن ادبی بیماریاں کیسے تخلیق کیں، ممتاز مفتی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ وغیرہ نے ان مرضوں کو کیسے صحت اور افزائش بخشی۔ منٹو کی عورت کیسے اور کہاں سے آئی؟ قرت العین حیدر کو مردوں کے آگ کے دریاؤں کا سامنا کس طرح کرنا پڑا۔ ان سب سوالات آسان جوابات کے ساتھ ڈاکٹر پیش کرتی ہیں۔ بس ان کا مطالبہ صرف ایک ہے ”مجھے فیمینسٹ نہ کہو“ ۔ اقرار کو انکار میں پیش کرنے کا یہ ہنر صرف طاہرہ کی شان ہے۔
ان کی تحریری دوائی کڑوی ضرور ہے مگر بیماریوں سے نجات کی ضمانت ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کی تحریروں کے آئینے میں آپ کو خادم رضوی، شوکت خانم کی نرسز کو گالیاں دیتے ملے گا، ٹنڈو باگو۔ سندھ کے مولانا عیسیٰ سموں اور ان کے گالیاں دینے کے لیے بنائے گئے شاگرد مولانا اسد اللہ بھٹو کے خطبات کے مواد کا بھی تذکرہ ملے گا۔ اس میں کہیں ناموں کا فرق ہو سکتا ہے۔ بہانے سے عورتوں اور ویکسینیشنز کا تذکرہ کر کے سیکس پر بات کر کے اپنا مذہبی چورن بیچنے والوں کی ذہنی، جنسی اور صنفی کمزوریوں کا بھی اس کتاب میں تذکرہ ملتا ہے۔
عورت کا کنوارا پن مردوں کے ذہنوں پر کیوں سوار ہے، کنوارا پن ہے کیا، ٹو فنگر ٹیسٹ/ دو انگلی معائنہ کیا ہے۔ جو لاہور ہائے کورٹ کی عظیم جسٹس عائشہ ملک کے تحریر کردہ تاریخی فیصلے کے بعد ممنوع ہے۔
زبرجنسی، جنسی ہراسانی، مرد و عورت کی ازدواجی زندگی کے بحث میں نے آنے والے مسائل بھی اس کتاب میں اچھی طرح پیش کیے گئے ہیں۔ وہ تمام باتیں، موضوعات جن سے وطن عزیز میں بے حیائی پھیلنے کے خدشات ہوتے ہیں وہ کھول کر بیان کیے گئے ہیں اور ابھی تک سب کی حیا قائم ہے۔ ماسوائے منافقین کے۔
یہ بھی پڑھیے:
نایاب سیاسی نسل کے سیاستدان کی جدائی! ۔۔۔ اشفاق لغاری
ظالم صوبائی اکائیاں اور مظلوم وفاق! ۔۔۔ اشفاق لغاری
قوم کے بچے ہود بھائی اور حنیف نہیں، فیاض الحسن چوہان پڑھائیں گے! ۔۔۔ اشفاق لغاری
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر