نومبر 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ چینی بچے یاد آئے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

پھر ان کا والد لوٹ گیا تھا۔ کچھ سالوں بعد معلوم ہوا کہ بڑی لڑکی نے خود کشی کر لی ، چھوٹی کا کیا بنا، کچھ معلوم نہیں البتہ لڑکے کو چند سال بعد شلوار قمیص پہنے، ہاتھ میں غلیل تھامے اور مقامی گندی گالیاں بکتے میں نے دیکھا تھا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا
وہ تھے تو ہانگ کانگ سے جو ان دنوں چین کی بجائے برطانیہ کے تسلط میں تھا، انہیں ان کا لمبا چوڑا اور وجیہہ باپ، ان کی ماں سے جدا کرکے یا شاید ان کی ماں مر گئی تھی، ہمارے قصبے علی پور ضلع مظفرگڑھ میں ان کی پھوپھی نوراں منیارن کے ہاں لے آیا تھا۔ لڑکیاں اور عورتیں چوڑیاں چڑھوانے منیارن کے ہاں آتی ہی تھیں مگر چینی بچوں کو دیکھنے کے لیے تو لوگوں کے ٹھٹھ لگ گئے تھے۔
میں غالباـ ساتویں میں تھا اور سال تھا 1964، میں بھی ان بچوں کو دیکھنے گیا تھا۔ ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی، جھینپی ہوئی ، اس کے پیچھے چھپتی ایک سات آٹھ سال کی بچی، ایک حیران اور رنجیدہ بارہ تیرہ سال کا چینی نقوش والا مگر گندمی بچہ، ان کے والد کو وہیں دیکھا تھا جن کا رنگ خاصا گندمی تھا۔ والد اور بچوںکے لباس یورپی نوع کے تھے۔ وہ سارے صحن میں بیٹھے یا کھڑے تھے اور ہم ان کے گھر کی دہلیز پہ دالان سے انہیں دیکھ رہے تھے،
پھر ان کا والد لوٹ گیا تھا۔ کچھ سالوں بعد معلوم ہوا کہ بڑی لڑکی نے خود کشی کر لی ، چھوٹی کا کیا بنا، کچھ معلوم نہیں البتہ لڑکے کو چند سال بعد شلوار قمیص پہنے، ہاتھ میں غلیل تھامے اور مقامی گندی گالیاں بکتے میں نے دیکھا تھا۔
بدنصیبی ان بچوں کو ہانگ کانگ سے کھینچ کر برباد کرنے کو جنوبی پنجاب کے تب دور افتادہ قصبے میں لے آئی تھی۔
سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، ہفتے، ماہ و سال تو ہم نے سیاروں ستاروں کی گردش کے محتاج ہو کربنائے ہیں مگر وقت دائمی رہا۔ وقت سے متعلق مابعدالطبعیات کیا کہتی ہے اور سائنس کیا، اس سے ہم فانی انسانوں کو بھلا کیا غرض جو پیدا ہی مرنے کی خاطر ہوتے ہیں مگر ہم دنیا میں موجود وقت کی اکائیوں سے بندھے ہوئے ضرور ہیں۔ وقت سے متعلق عمومی جھوٹ تو ہم عام ہی بولتے ہیں کہ ایک سیکنڈ یار جو سیکنڈ کی بجائے منٹ ہوتا ہے۔ بس ایک منٹ میں پہنچا، چاہے گھنٹے کے بعد پہنچیں۔ کام بس گھنٹے میں ہو جائے گا چاہے ہونے میں دو دن لگ جائیں، ہفتہ، مہینہ، سال ، کئی سال یا کبھی نہ ہو۔ اس کے باوجود ہم نے گھڑیاں باندھی ہوتی تھیں ، اب یہ کام موبائل اور ٹیبلٹس دینے لگے ہیں۔ جس وقت نے بھلے کے لیے صرف ہونا ہوتا ہے وہ یقینا” ہوتا ہے اور جس وقت نے ضائع ہونا ہوتا ہے ، وہ ہو کر رہتا ہے، یہ ہم جیسوں کا خیال ہے۔ مگر ایسے افراد تو کیا پوری کی پوری ایسی اقوام موجود ہیں جنہوں نے اپنے وقت کو کام اور تفریح کے خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہوتا ہے لیکن ہم میں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو نہ تفریح کرتے ہیں اور نہ کام وہ بھلا وقت سے متعلق کیا جانیں۔ وقت کی اہمیت سمجھنے اور ناقدری کرنے کا معاملہ تو بعد کی بات ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author