نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاک گیٹ: ملتان کی پرانی فصیل کی پیشانی پہ چمکتا سنہرا جھومر||محمد شیراز اویسی

اسی النگ پہ ملتان کے مشہور زمانہ استاد اور شاگرد کے تعزیوں کے آستانے ہیں یہ تعزیے اپنی جدت اور خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور محرم کے ابتداٸی عشرے میں لاکھوں لوگ ان کی زیارت کرتے ہیں

محمد شیراز اویسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں اب دروازہ تو نہیں لیکن اپنے دامن میں موجود سونے کے بازار کی مانند پرانے ملتان کے گرد فصیل کا سنہری جھومر ضرور ھے
نام کی وجہ تسمیہ جو تاریخی روایات سے پتہ لگتی ھے کہ جب اولاد غوثِ پاک حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ الله کے برگزیدہ بندے اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کے جدِ امجد حضرت موسٰی پاک شہید ؒ کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے اوچ شریف سے ملتان لایا گیا تو فصیل کے اسی دروازے سے انھیں لایا گیا جس کی وجہ سے اسے پاک دروازہ کیا جاتا ھے لیکن گردشِ حالات اور وقت کا ستم کہ اب یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ دروازہ کب منہدم ھوا اور کیوں ختم ھو گیا لیکن دروازہ نہ ھونے کے باوجود اب تک اسے پکارا پاک گیٹ کے نام سے ھی جاتا ھے اور ملتان شہر میں آنے جانے کے لیے اھم رہگزر کے طور پہ استعمال ھوتا ھے
پاک گیٹ کے اندر داخل ھوتے ھی پہلے تو چٹ پٹے ملتانی کھانوں کی قدیم دوکانوں سے سامنا ھوتا ھے جہاں صبح کے وقت ڈولی روٹی دال مونگ اور حلوہ پوری اور پھر سارا دن فالودہ اور انواع قسم کی مٹھاٸیوں کی دوکانیں سجی ھوتی ہیں لیکن اب تو جیسے سب کچھ سونے کی دوکانیں ہڑپ کرتی جا رھی ہیں تھوڑا ھی آگے جاتے صرافہ بازار شروع ھوجاتا ھے جو چوک بازار تک پھیلا ھوا ھے بلکہ ارد گرد کی گلیوں میں دور دور تک توسیع پا چکا ھے کچھ لوگوں کے بقول یہ بازار پاکستان کا سب سے بڑا صرافہ بازار ھے جہاں روزانہ کروڑوں روپے کے سونے چاندی کا لین دین ھوتا ھے اس بازار میں اسماعیلی کمیونٹی کی بھی بہت اعلٰی پاٸے کی دوکانیں ہیں
آگے جاکر یہ راستہ چوک بازار سے ھوتا ھوا حسین آگاھی کی طرف جا نکلتا ھے جو ملتان کی سب سے بڑی تجارتی مارکیٹ ھے
پاک گیٹ بازار کی طرف منہ کر کے کھڑے ھوں تو داٸیں طرف النگ کا راستہ خونی برج النگ سے ھوتا ھوا دہلی گیٹ اور دولت گیٹ کی طرف جا نکلتا ھے جہاں بہت سی قدیم عمارتیں موجود ہیں پہلے تو باٸیں طرف شروع میں ھی تقریبا ساٹھ ستر پرانی سری پاٸے کی المعروف تھومی کی دوکان جہاں اب بھی لزیذ سری پاٸے ملتے ہیں اس دوکان کا تذکرہ یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ھے کہ اپنے بچپن میں وہ یہاں سے سری پاٸے کھاتے رھے ہیں ۔۔
اسی النگ پہ ملتان کے مشہور زمانہ استاد اور شاگرد کے تعزیوں کے آستانے ہیں یہ تعزیے اپنی جدت اور خوبصورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں اور محرم کے ابتداٸی عشرے میں لاکھوں لوگ ان کی زیارت کرتے ہیں
باٸیں طرف النگ کا راستہ حرم گیٹ اور بوہڑ گیٹ سے ھوتا ھوا لوہاری گیٹ کی جانب جا نکلتا ھے اسی النگ پہ جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی کراکری کی مارکیٹ ھے
اور تقریبا النگ کے درمیان سے سیڑھیاں اترتے ھوٸے ایک راستہ حضرت موسی پاک شہید ؒ کے دربار کی جانب جا نکلتا ھے جہاں ایک قدیمی مسافر خانہ بھی موجود تھا جس میں دربار کی زیارت کے لیے آنے والے زاٸرین قیام پزیر ھوتے تھے یہ کافی خستہ اور تقریبا بند ھو چکا تھا پھر سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارتِ عظمی کے دور میں اس مسافر خانے کو بھی بحال کیا اور النگ کے نیچے تجاوزات کو ختم کر کے راستے کو بھی وسیع کیا اور مزار کے احاطے کو بھی توسیع دی جس سے انے جانے والوں کو سہولت کے ساتھ ساتھ اندرون شہر کے لوگوں کو ایک وسیع جنازہ گاہ بھی میسر آ گٸی
پاک دروازے سے باہر نکلتے ھی داٸیں طرف راستہ حرم گیٹ کی طرف اور باٸیں طرف راستہ خونی برج چوک کی جانب جا نکلتا ھے تاریخی روایات کے مطابق خونی برج چوک پہ ھی سکندرِ اعظم پہ جان لیوا حملہ ھوا جو اس کے مرنے کا سبب بھی بنا اسی بنا پہ اسے خونی برج چوک کا نام دیا گیا
پاک دروازے کے بلکل سامنے ایک سڑک اترتی ھے جو دو حصوں میں تقسیم ھو جاتی ھے ایک راستہ گل روڈ سے ھوتا ھوا لوھا مارکیٹ کی طرف جا نکلتا ھے اسی گل روڈ پہ کسی دور میں پتنگوں کی بہت بڑی مارکیٹ ھوتی تھی جو پابندی کی بعد اب ختم ھو چکی ھے اور اسی روڈ پہ قاٸم تاریخی محلے میں کٸی نامور فنکار اور گلوکار پیدا ھوٸے جنھوں نے پاکستان کی ڈرامہ اور فلم انڈسٹری میں بہت نام پیدا کیا
دوسرا راستہ ملتان کے تاریخی محلوں بھیتی سراٸے اور کڑی داود خان کی طرف جا نکلتا ھے
May be an image of 6 people, people standing, outdoors and temple
پاک دروازے کا چوک اور بازار تاریخی طور پہ اپنے اندر بہت سے خزینے سموٸے ھوٸے ھے لیکن ناجاٸز تجاوزات اور بے ہنگم ٹریفک نے اس یادگار خزینے کے حسن کو گہنایا ھوا ھے اگر ارباب اختیار توجہ دیں تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کے لیے بلاشبہ یہ ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ھے

About The Author