وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ دان احباب سے دریافت کیا ۔ سیاسیات کے اساتذہ سے استفسار کیا۔ پاکستان میں سیاسی ارتقا کے نشیب و فراز کے شناوروں سے پوچھا کہ آخر اردو زبان میں پہلی مرتبہ سیکولر ازم کا ترجمہ ”لادینیت“ کس عبقری نے کیا تھا۔ کسی نے مولوی عبدالحق کی اردو لغت پر نام دھرا۔ ارے صاحب، وہ لغت تو مولوی احتشام الحق حقی کی عرق ریزی کا نتیجہ تھی۔ مولوی عبدالحق تو اس لغت پر اپنا اسم گرامی شائع کرنے کے گناہ گار تھے۔ البتہ احتشام الحق حقی کے صاحبزادے شان الحق حقی نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے جو انگریزی اردو لغت مرتب کی اس میں بھی سیکولرازم کا ترجمہ ’لادینیت‘ ہی لکھا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو لغت مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی میں بھی سیکولرازم کے ذیل میں ” لادینی جذبہ یا رجحانات بالخصوص وہ نظام جس میں جملہ مذہبی عقاید و اعمال کی نفی ہوتی ہے“ کی عبارت دی گئی ہے۔
یہ سوال تشنہ جواب ہو سکتا ہے کہ سیکولر ازم کو پہلی مرتبہ کس نے ”لادینیت“ کا سراسر غلط اور گمراہ کن مفہوم بخشا تھا۔ تاہم یہ امر طے ہے کہ پاکستان میں سیکولرازم کو بد نیتی سے اور تکلیف دہ تسلسل کے ساتھ لادینیت کا نام دینے اور اسے عوام الناس کے ذہنوں میں راسخ کرنے میں بنیادی کردار جماعت اسلامی نے ادا کیا۔ جماعت اسلامی نے پراپیگنڈے کے لیے اپنے آلات کار کا انتخاب کمیو نسٹ تحریک کے ترکش اور جرمن نازی پارٹی کے اسلحہ خانے سے کیا تھا۔ نظریاتی پراپیگنڈے کے اس ترجیحی نمونے میں سچائی، فکری دیانت اور حقیقت بیانی کو زیادہ زحمت نہیں دی جاتی۔ مختلف اصطلاحات کا من مانا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ اس ترجمے کو ایک خاص مفہوم پہنایا جاتا ہے اور پھر اس خود ساختہ تشریح کو اس شدت سے اور اس تواتر سے دہرایا جاتا ہے کہ عام ذہن نہ صرف اسے درست تسلیم کر لیتا ہے بلکہ اس سے مختلف رائے کو قریب قریب کفریہ کلمہ سمجھنے لگتا ہے۔
سیکولرازم کا کسی مذہب کی مخالفت یا حمایت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیکولرازم ایسا ریاستی نظام ہے جو مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے تحفظ، بہبود اور ترقی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ سیکولر ریاست ان مقاصد کے حصول کے لیے فہم عامہ ، اجتماعی مشاورت اور انصاف کے اصول بروئے کار لاتی ہے۔
انسانی معاشرہ ارتقا پذیر مظہر ہے۔ تاریخی طور پر معاشرے کو منظم کرنے کے لیے مختلف ریاستی نظام اختیارکیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی کسی خاص خاندان کو حقِ حکمرانی بخشا جاتا تھا، کبھی کسی مخصوص نسل یا زبان سے تعلق رکھنے والوں کو حقِ حکمرانی ودیعت کیا جاتا تھااور کہیں کسی خاص عقیدے کے پیشوا منصبِ حکمرانی کے اہل قرار دیے جاتے تھے۔ اسی طرح ریاست کا نصب العین بھی تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ کہیں ریاست کا مقصد شخصی اقتدار کا فروغ قرار پاتا تو کہیں ریاست کسی خاص نسل یا قبیلے کی منفعت کے لیے کشور کشائی کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ کبھی ریاست کو کسی خاص عقیدے کی ترویج کے لیے آلہ¿ کار بنایا جاتا تھا۔
ہزاروں برس کے تجربات کی روشنی میں بالآخرانسان اس نتیجے پر پہنچا کہ ریاستی بندوبست کی یہ تمام صورتیں معاشرے میں امن، انصاف اورترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ انسانوں کے لیے امن ، تحفظ، انصاف اور بلند معیارِ زندگی کے حصول کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کو ریاست کا مساوی رکن تسلیم کیا جائے اور مختلف الوہی یا نظریاتی مقاصد کی بجائے ریاست کو انسانوں کی دنیاوی زندگی بہتر بنانے کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ ریاست کو صرف ان معاملات میں دخل اندازی کی اجازت ہونا چاہیے جنھیں غیر جانب دارانہ اور معروضی سطح پر پرکھااور جانچاجا سکے۔ عقیدہ انفرادی انسانی ضمیر سے تعلق رکھتا ہے اور کسی فرد یا ادارے کے لیے کسی دوسرے انسان کے عقیدے کی پرکھ ممکن نہیں۔ چنانچہ مذہب میں مداخلت یا کسی مذہب کی بالادستی قائم کرنا یا کسی مذہب کو غلط قرار دینا ریاست کا کام نہیں۔
سیکولر ریاست کی اصطلاح لاطینی لفظ Saecularisسے مشتق ہے جس کا لُغوی مطلب ہے دنیا یا زمین۔ گویا سیکولر ازم میں ریاست کا مقصد ہماری دنیا وی یا زمینی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے پیٹ میں غذا ، بدن پرلباس اور سر پر چھت فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اُن کے لیے مناسب روزگار اور مناسب تفریحات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست شہریوں کو حصولِ علم اور مختلف فنون میں ذوق پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اُن کے جان و مال اور شخصی آزادیوں کی حفاظت کرتی ہے۔ زندگی کو آرام دہ بنانے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ سیکولر ریاست کا فرض ہے کہ ایسے قوانین ، ادارے اورپالیسیاں اختیار کرے جن کی مدد سے معاشرے سے جرم اور تشدد کو ختم کیا جا سکے، جہالت مٹائی جا سکے، غربت کا قلع قمع کیا جا سکے اور بیماریوںکی روک تھام کی جا سکے۔
سیکولر ریاست ایسے امور میں دخل اندازی سے گریز کرتی ہے جہاں غیر جانب دارانہ فیصلہ سازی ممکن نہ ہو مثلاً سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے عقائدمیں مداخلت نہیں کرتی۔ شہری اپنی زبان ، ثقافتی ترجیحات، مذہبی عقائد نیز علمی اور سیاسی نظریات اپنانے کی آزادی رکھتے ہیں بشرطیکہ کوئی شہری دوسرے شہریوں کی ایسی ہی آزادیوںمیں مداخلت نہ کرے۔ برطانوی فلسفی جان لاک (John Locke) نے سترہویں صدی میں رواداری کے موضوع پر اپنے معروف مقالے Letter Concerning Toleration A میں سیکولرازم کے ابتدائی خد و خال واضح کیے تھے۔ لاک کا خیال تھا کہ اگر ریاست مذہبی امور میں غیر جانبدار نہ ہو تو اس کے لیے اپنے تمام شہریوں کو یکساں تحفظ دینا ، امن قائم کرنا اور تمام شہریوں کی ایک جیسی بہبود کی ضمانت دینا ممکن نہیں رہتا۔
اٹھارہویں صدی میں امریکا آزاد ہوا تو وہاں نئی ریاست کے آئینی خدوخال پر پرزور مباحث شروع ہوئے۔ امریکی اعلانِ آزادی کا مصنف تھامس جیفرسن ریاست ورجینیا کے ایوان نمائندگان کا رکن تھا۔ اس مدبر انسان نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1777ءمیں مذہبی آزادی کا مسودہ قانون پیش کیا جو طویل مباحث کے بعد 1786ءمیں منظور کیا جا سکا۔ بمشکل سوا سات سو الفاظ پر مبنی اس تاریخ ساز دستاویز کی اہمیت اس امر سے سمجھی جا سکتی ہے کہ 1948ءمیں اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا اعلامیہ مرتب کرتے ہوئے مذہبی آزادی کے باب میں ورجینیا کے قانون برائے مذہبی آزادی ہی کی خوشہ چینی کی تھی۔ خود پاکستان کے تینوں دساتیر میں مذہبی آزادی سے متعلق شقوں پر اس قانون کے اثرات صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔
تھامس جیفرسن مذہبی تعلیمات پر یقین رکھتا تھا اور مذہب کا مخالف نہیں تھا۔ اس کی تنقید کا ہدف دراصل مذہب کی سیاسی وابستگیاں اور سیاسی پہلو تھے جو اس کے نزدیک قابل قبول نہیں تھے۔ جیفرسن کا کہنا تھا کہ”ہر ملک اور ہر عہد میں مذہبی پیشوا آزادی کا دشمن رہا ہے۔ وہ ہمیشہ جابر حکمران کا ساتھ دیتا ہے اور اپنی حفاظت کے بدلے اس کی بدعنوانیوں میں اس کا مددگار رہتا ہے۔ جب تک مذہب اور ریاست ایک دوسرے سے نتھی رہیں گے، انصاف اور آزادی کے تصورات احمق کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہوتے“۔
مذہبی آزادی کی حمایت یا مذہبی استبداد سے نفرت میں جیفرسن ان لوگوں سے بھی ایک قدم آگے تھا جو محض رواداری پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ایسی مذہبی آزادی کو ضروری سمجھتا تھا جسے قانون کا مکمل تحفظ حاصل ہو۔
”حکومت کے جائز اختیارات کے دائرے میں صرف ایسے افعال آتے ہیں جو دوسروں کے لیے ضرر رساں ہوں۔ لیکن میرے پڑوسی کے مجھ سے مختلف عقائد سے مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ اس سے نہ میری جیب کٹتی ہے اور نہ میری ٹانگ ٹوٹتی ہے۔ آخر ریاست اپنے شہریوں کے عقیدے پر پابندیاں کیوں لگائے؟ یکسانیت کی خاطر ….لیکن کیا مذہبی یکسانیت کا حصول ممکن ہے؟ انسانی تاریخ میں مذہب کے نام پر لاکھوں مرد، عورتیں اور بچے نذر آتش کر دیے گئے۔ انہیں طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ ان پر جرمانے کئے گئے اور انہیں قید میں رکھا گیا مگر یکسانیت پیدا نہ ہو سکی۔ جبر کا نتیجہ کیا نکلا؟ آدھی دنیا احمق بن گئی اور آدھی منافق…. “
اس قانون کا مقصد بلالحاظ مذہب تمام شہریوں کی آزادی ضمیر کا تحفظ تھا۔ جیفرسن کے اپنے لفظوں میں ”یہودی، عیسائی، مسلمان، ہندو یا کسی بھی طرح کے عقائد رکھنے والے شہریوں کی حفاظت کرنا تھا۔“
سیکولرازم کی اصطلاح برطانوی مفکر جارج جیکب ہولیایک (George Jacob Holyoake) نے 1896ءمیں اپنی کتاب The Origin and Nature of Secularism میں استعمال کی تھی۔ یاد رہے کہ اس وقت تک آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ جیسی استثنائی مثالوں کے سوا کہیں بھی جمہوریت کی وہ شکل رائج نہیں تھی جس سے ہم آج کل مانوس ہیں۔ امریکا میں کالوں اور برطانیہ میں عورتوں کو مساوی شہری حقوق حاصل نہیں تھے۔ آدھی سے زیادہ دنیا نوآبادیاتی نظام کے تحت غلامی میں جکڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے ہمیں اس امر پر فخر ہونا چاہیے کہ بیسویں صدی میں اگر کسی مدبر نے بطور حکمران اپنی کسی تقریر میں سیکولرازم کی بہترین وضاحت کی ہے تو اس کا نام قائد اعظم محمد علی جناح تھا۔ پنڈت نہرو کو سیکولرازم کا حامی سمجھا جاتا ہے اور وہ واقعتاً سیکولر ذہن رکھتے تھے۔ تاہم سیکولرازم کے بیان اور دفاع میں پنڈت جی کی ایک بھی ایسی تقریر موجود نہیں جسے قائد اعظم کی اس تقریر کے مقابل رکھا جا سکے جو انہوں نے 11اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں کی تھی۔ یہ تقریر انسانی خطابت کی تاریخ میں ابراہم لنکن کے گیٹس برگ خطبے، چرچل کی ’خون پسینہ اور کٹھنائی‘ والی تقریر، مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر ’میرا ایک خواب ہے‘ اور جان ایف کینڈی کی تقریر ’میں برلن کا شہری ہوں‘ کی صف سے تعلق رکھتی ہے۔
11اگست 1947ءکو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس نوزائیدہ ریاست کی پہلی سرکاری تقریب تھی ۔ محمد علی جناح اس موقع پر تین حیثیتوں سے مخاطب ہو رہے تھے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر تھے۔ وہ پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے اور اس تقریر سے کچھ ہی دیر پہلے نئی دستور ساز اسمبلی نے انہیں اپنا سربراہ منتخب کیا تھا۔ ان نمائندہ ترین حیثیتوں میں قائد اعظم پاکستان کے باشندوں نیز بیرونی دنیا پر دو روز بعد معرض وجود میں آنے والی نئی ریاست کے خدوخال واضح کر رہے تھے۔وہ اس موقع پر نہ تو کسی عوامی اجتماع میں خطاب کر رہے تھے اور نہ اپنی سیاسی جماعت کے عہدے داروں سے مخاطب تھے۔یہ تقریر دراصل پاکستان کے سیاسی اور آئینی خدوخال تراشنے کی پہلی کوشش تھی۔
یہ حقیقت تو اب تاریخ کا حصہ ہے کہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں نے اس تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی تھی۔ معروف صحافی ضمیر نیازی نے اپنی کتاب ’سنسر شپ کا جال‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ کس طرح پاکستان کے کچھ اعلیٰ سرکاری اہل کاروں اور سیاسی عہدیداروں نے اخبارات میں فون کر کے قائد اعظم کی اس تقریر کی اشاعت رکوانے کی کوشش کی۔ روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین کو نئی مملکت کے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں بڑا رسوخ حاصل تھا ۔وہ اپنے پیشہ وارانہ پس منظر کی بنا پر اس تقریر کی اہمیت سے بھی واقف تھے اور اس میں کسی تبدیلی کے اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں مضمرات بھی سمجھتے تھے۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ خود قائد اعظم سے بات کر کے اس تقریر کے بارے میں براہ راست احکامات حاصل کریں گے۔ اس پر قائد اعظم کے برخود غلط رفقا کو وقتی طور پر اپنی سازش لپیٹنا پڑی۔ تاہم اس سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں روز اول ہی سے نظریاتی کشمکش کی بنیاد موجود تھی۔ آخر یہ اصحاب ذخیرہ اندوزی ،ملاوٹ اور اقربا پروری کے بارے میں قائد اعظم کے ارشادات کو تو حذف کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ سامنے کی بات ہے کہ انہیں اس تقریر کے ان حصوں پر اعتراض تھا جہاں قائد اعظم نے پاکستان میں سیکولر ریاستی نظام کے خدوخال واضح کیے تھے۔ اگرچہ پاکستان میں سیکولرازم کے مخالف گروہ کو وقتی طور پر ہزیمت اٹھانا پڑی لیکن اس حلقے نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔ یہ گروہ قائد اعظم کی وفات کے بعد 12مارچ 1949ءکو اسی دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا۔ قرار داد مقاصد جوہری طور پر قائد اعظم کی 11اگست 1947ءکی پالیسی تقریر سے عین متصادم دستاویز ہے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں ایک بھی مسلم رکن نے اس قرار داد کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ 1973ءمیں منتخب اسمبلی نے پاکستان کا دستور وضع کیا تو قرار داد مقاصد کو اس آئین میں دیباچے کی حیثیت دی گئی۔ پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاالحق نے 1985میں غیر جماعتی اسمبلی سے بزور بندوق آٹھویں آئینی ترمیم منظور کرائی تو اس قرار داد کو آئین کا ’نافذالعمل‘ حصہ بنا لیا گیا۔ یہ دونوں دستاویزات پاکستان میں نظریاتی کشمکش کی علامت بن چکی ہیں۔ قائد اعظم کی تقریر جمہوریت پسندوں کی آنکھ کا سرمہ ہے تو قرار داد مقاصد کو غیر جمہوری قوتوں نے حرز جان بنا رکھا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اس تقریر میں کیا کہا تھا۔ ابتدائی رسمی کلمات کے بعد محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی اور مقننہ کا وظیفہ منصبی بیان کرتے ہوئے کہا
\”The Constituent Assembly has got two main functions to perform. …and the second of functioning as a full and complete Sovereign body as the Federal Legislature of Pakistan.\”
)دستور ساز اسمبلی کو دو بنیادی فرائض انجام دینا ہیں…. اور ان میں سے دوسرا وظیفہ منصبی پاکستان کی وفاقی مقننہ کی حیثیت سے ایک مکمل خود مختار ادارے کے طور پر کام کرنا ہے ۔ (
اور پھر کہا کہ
…remember that you are now a sovereign legislative body and you have got all the powers.
)یاد رکھیے کہ آپ اب ایک خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ (
یہ امر قابل غور ہے کہ قائد اعظم نے مقننہ کو ’مکمل طور پر خود مختار ادارہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کے اختیارات پر کسی غیر منتخب ادارے کے ممکنہ احتساب کو تسلیم نہیں کیا۔ قائد اعظم نے کسی ’نظریاتی کونسل‘ کا ذکر نہیںکیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے سوا کسی ادارے کو ’نظریاتی سرحدوں‘ کا محافظ قرار نہیں دیا۔ محمد علی جناح جیسے قانون دان سے یہ امر مخفی نہیں ہو سکتا تھا کہ جمہوری ریاست میں عدلیہ دستور کی تشریح کا اختیار رکھتی ہے ۔ لیکن وہ ’قانون کی تشریح‘ اور ’قانون سازی‘ میں حد فاصل سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں میں ایک بنیادی اختلاف مقننہ کے حق قانون سازی کی حدود پر ہے۔ جمہوریت پسند حلقے مقننہ کی مکمل بالادستی چاہتے ہیں جب کہ غیر جمہوری قوتیں قانون ساز اداروں کے پرِ پرواز پر نظریاتی گرہ لگانا چاہتی ہیں۔
بعد ازاں حکومت کے فرائض بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا
…the first duty of a government is to maintain law and order, so that the life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the state.
)…. کسی حکومت کا سب سے پہلا فرض امن وامان کو برقرار رکھنا ہے تاکہ ریاست اپنے شہریوں کے جان ومال اور مذہبی عقائد کی پوری طرح سے حفاظت کرسکے۔(
یہ ایک ایسی حکومت کی بہترین تشریح ہے جو مذہب کی بنیاد پر کسی امتیاز کے بغیر شہریوں کو تحفظ فراہم کرتی ہو۔ سیکولر حکومت کا کام کسی مذہب یا عقیدے کی بالادستی کے لیے کام کرنا نہیں بلکہ تمام شہریوں کو ایک جیسا تحفظ فراہم کرنا ہے ۔
جدید قومی ریاست اپنے تمام باشندوں میں ایک رضاکارانہ معاہدے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس معاہدے میں ہر شہری مساوی حیثیت کے فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیکولر ریاست میں ہر شہری کی بنیادی اور اہم ترین وابستگی اپنی ریاست سے ہے۔ سیکولر ریاست اپنے شہریوںکے ساتھ صرف ایک رشتے کی پابند ہے یعنی شہریت کا رشتہ اور اس رشتے کی بنیاد پر بغیر کسی امتیاز کے تمام شہریوں کی حفاظت۔ البتہ سیکولر ازم میں شہریوں کو زبان، ثقافت، نسل یا عقائد وغیرہ کی بنیاد پر مختلف شناختیں اختیار کرنے کا رضاکارانہ حق حاصل ہوتا ہے۔ سیکولر ریاست کا کام ایسے ادارے اور قوانین تشکیل دینا ہے جن کی مدد سے کمزور سے کمزور شہری طاقتور ترین افراد اور قوتوں سے اپنا حق بلا خوف و خطر مانگ سکے۔ آئیے دیکھیں کہ قائد اعظم نے مساوی شہریت کے اصول کو اپنی تقریر میں دو مواقع پر بیان کیا۔
…everyone of you, no matter to what community he belongs,… no matter what is his color, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations….
(آپ میں سے ہر ایک کی، قطع نظر اس سے کہ وہ کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کا رنگ، ذات پا ت یا عقیدہ کیا ہے، پہلی، دوسری اور آخری حیثیت اس ریاست کا شہری ہونا ہے اور اسے دیگر تمام شہریوں کے مساوی حقوق، مراعات اور فرائض حاصل ہیں۔)
قائد اعظم نے مزید کہا
We are starting in the days when there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.
(ہم اپنے کام کا آغاز ایک ایسے عہد میں کررہے ہیں جہاں کسی امتیاز کی گنجائش نہیں۔ جہاں کسی ایک فرقے یا دوسرے کے درمیان تفرقے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جہاں ذات پات یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں اور مساوی شہری ہیں۔)
سیکولر ازم کسی مذہب کی مخالفت نہیں کرتا اور نہ کسی مذہب کی ترویج کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ کیونکہ اگر ریاست کسی مذہب کی بالادستی کا بیڑا اٹھا لے تو دیگر مذاہب کے پیروکار شہریوں کی حق تلفی لازم آتی ہے۔ دوسری طرف ترجیحی مذہب کے پیشواﺅں کی مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ سیکولر ریاست تو اس اصول کا سادہ سا بیان ہے کہ ریاست کا کام مذہبی طور پر غیرجانبدار رہتے ہوئے اپنے تمام باشندوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ ہے۔ سیکر ریاست ہی شہریوں کی مذہبی آزادی، رواداری اور امن کی ضمانت دے سکتی ہے۔ قائد اعظم نے اس اصول کو شاندار اور سادہ لفظوں میں بیان کیا۔
You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other places of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed – that has nothing to do with the business of the State…
(آپ آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، آپ کو پاکستان کی ریاست میں اپنی مسجدوں یا دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی پوری آزادی ہے۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، اس کا ریاست کے امور سے کوئی تعلق نہیں۔)
قائد اعظم نے مذہبی آزادی اور سیکولر شہریت کے دونوں اصولوں کا باہم تعلق بیان کرتے ہوئے کہا
\”… in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.\”
(وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ ایسا کسی مذہبی اصطلاح میں نہیں ہوگا کیونکہ مذہب ہر فرد کا نجی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اصطلاح میں، ایک ریاست کے شہری کی حیثیت سے ۔)
ممکن ہے پاکستان میں کچھ حلقوں کو سیکولرازم سے اختلاف ہو اور انہیں اپنی رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ تاہم یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ پاکستان میں ابھی رائے عامہ کا وہ حصہ بحیرہ عرب میں غرق نہیں ہوا جس کے لیے سیکولرازم خدشہ نہیں، تمدنی ایمان کا حصہ اور پاکستانی شہری ہونے کا جزو لا ینفک ہے۔ ان کے لیے سیکولرازم پاکستان سے محبت کا ارفع ترین اظہار اور مقدس ترین نصب العین ہے کیونکہ صرف سیکولرازم ہی سے ایسے پاکستان کی ضمانت دی جا سکتی ہے جس میں مسلمان (شیعہ، سنی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر )، مسیحی (کیتھولک، پروٹسنٹ )، ہندو، پارسی سمیت پاکستان کے تمام شہری عقیدے کی بنا پر کسی خوف و خطر کے بغیر زندگی گزار سکیں۔ جس میں بلوچ، پنجابی، سندھی اور پختون شہریوں کو اپنی لسانی اور ثقا فتی شناخت کی بنا پر غدار کہلانے کا خدشہ نہ ہو بلکہ یہ سب اکائیاں پاکستان کے وفاق کی مضبوطی کی علامت ہوں۔ سیکولرازم ہی سے پاکستان کی ترقی، اداروں کے استحکام اور یہاں کے باشندوں کی خوشحالی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
ابھی پاکستان میں سیکولرازم میں یقین، اس یقین کے اظہار اور اس نقطہ نظر کی ترویج کو جرم قرار نہیں دیا گیا۔ تاریخ میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں جب مقتدر طبقات کے لیے ناپسندیدہ خیالات اور عقائد کو جرم قرار دیا گیا لیکن ایسے قوانین تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قانون اور تعزیرات (سزائیں) خیالات کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتے۔ خیال میں سچائی ہو تو اس خیال کو دنیا کی کوئی طاقت دبا نہیں سکتی۔ پاکستان میں سیکولرازم کو جرم قرار دے بھی دیا جائے تو بھی محمد علی جناح کے پیرو کار سیکولرازم کا نصب العین ترک نہیں کریں گے۔ اگر وہ اپنی زندگیوں میں اس نصب العین کو حاصل نہ کر سکے تو اپنی آئندہ نسلوں کو اس جدوجہد کا پرچم تھما کر رخصت ہوں گے۔ انسانیت نے ہزاروں برس غلامی کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ذات پات کی غیر انسانی تقسیم کے خلاف انسانوں کی جدوجہد صدیوں پر محیط ہے۔ یورپ نے صدیوں تک پاپائے روم کے استبداد کے خلاف جدوجہد میں ہر طرح کے مظالم برداشت کیے۔ جنوبی افریقا کے رنگ دار باشندوں نے نصف صدی تک نسلی امتیاز کے خلاف قربانیاں دیں۔ سوویت یونین کے آزادی پسند وں نے ستر برس تک سائبریا کے یخ بستہ عقوبت خانوں میں اشتراکی جبر کا مقابلہ کیا۔ پاکستان کے باشندوں کو بھی اگر سو برس، پانچ سو برس یا پانچ ہزار برس تک سیکولرازم کے لیے لڑنا پڑا تو اس کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں گے۔ پاکستان میں بالآخر جمہور کی مکمل بالادستی اور خود مختاری کی وہ صبح ضرور نمودار ہو گی جس پر ملائیت کا غیر مبارک سایہ نہیں ہو گا۔ جہاں فوج ہماری جغرافیائی سرحدوں کی پاسبان ہو گی، ہماری مفروضہ نظریاتی سرحدوں کی محافظ نہیں۔ جہاں کسی غیر منتخب ادارے کو پاکستان کے عوام کا طرز زندگی طے کرنے پر اجارہ نہیں ہو گا۔ جہاں پارلیمنٹ قانون سازی میں مکمل طور پر آزاد ہو گی اور پاکستان کا ہر شہری عقیدے، جنس، زبان، ثقافت، سیاسی خیالات یا معاشرتی رائے کی بنا پر کسی امتیاز کے بغیر پاکستان کا مساوی شہری ہو گا۔
بشکریہ : ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر