محمود جان بابر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر مخالف سیاستدان کو گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہونے کا طعنہ دینے والے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کو اچانک محسوس ہونے لگا ہے کہ ملک میں علاج معالجہ بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ اتنا مہنگا کہ ان جیسے لوگ بھی مشکل میں پڑ گئے ہیں۔ حالانکہ ہمیں لگتا تھا کہ شیخ صاحب کھانے پینے سے لے کر سب کچھ اپنے مقامی دوستوں کے خرچے پر ہی کرتے ہوں گے۔ شیخ رشید صاحب جو وزیراعظم عمران خان کے ساتھ قربتوں کی بدولت سیاسی لحاظ سے موجودہ حکومت کے سب سے زیادہ سمجھدار وزیر دکھائی دیتے ہیں۔ کی جانب سے اپنی حکومت سے کوئی شکوہ عام بات نہیں بلکہ یہ اشارہ ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت کا مشکل دور شروع ہو چکا ہے۔
شیخ رشید ہمیشہ شریف خاندان کو لتاڑتے رہے ہیں اور اپنے تند و تیز بیانات سے انہیں پاکستان کے تمام مسائل کی وجہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی حکومت کو نجات دہندہ کہا اور ہر موقع پر ان کی دفاع کے لئے سینہ تان کر کھڑے رہے اب ان کی جانب سے حکومت سے کسی معاملے پر شکوہ اتنی عام بات تو نہیں، اور یوں بھی وہ عام حالات میں ایسا بیان نہیں دیتے جب تک وہ یقینی طور پر اپنی ”مستقل حمایت“ کی منصوبہ بندی یا رویے میں کوئی بڑی تبدیلی کا اشارہ نہ پالیں وہ پنڈی کے ہیں اور پنڈی ہی ان کی طاقت ہے جس کے مزاج کو سمجھ کر ہی وہ اپنا مزاج بناتے ہیں۔
اچانک نواز شریف کی وطن واپسی کا ماحول بننا بھی کوئی عام بات نہیں، خود عمران خان صاحب کے حوالے سے یہ خبریں منظرعام پر آئی ہیں کہ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا شکوہ کیا کہ ایک بار پھر سزایافتہ نواز شریف کو واپس لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ پاکستان کی سب سے طاقتور آئینی پوزیشن وزارت عظمیٰ پر تو آپ فائز ہیں تو شکوہ کس سے کر رہے ہیں اور وہ کون ہے جو نواز شریف کو واپس لا رہا ہے؟ یہ تو وزیراعظم کے طرف کی کہانی ہے لیکن یہ کوئی اتنی غلط بھی نہیں۔ جس طرح سے مسلم لیگ نون کے چوٹی کے رہنما نئی توانائی اور اعتماد کے ساتھ پھر میدان میں کودے ہیں اور سب ٹھیک کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو بھی کوئی ”بڑا“ دلاسا دیا گیا ہے اور وہ ایک بار پھر شیروانیاں پہننے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں جب شیخ رشید جیسے لوگ حکومت سے شکوے کرنے لگیں، تحریک انصاف کے سب سے مضبوط سمجھے جانے والے گڑھ اور سیاسی تجربوں کی آماجگاہ خیبرپختونخوا میں پارٹی کو بلدیاتی انتخابات میں شکست ہو چکی ہو اور عمران خان کے نشانے پر رہنے والے مولانا فضل الرحمن طاقت کے نئے ٹانک پی کر میدان میں ہوں، وزیراعظم خود نواز شریف کو لائے جانے کے شکوے کر رہے ہوں اور مسلم لیگ نون کی قیادت پھر جم کر کھڑی ہو چکی ہو ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبوں میں تحریک انصاف کے صدور کی تعیناتی کیا جادو دکھا سکتی ہے؟ اور خیبرپختونخوا میں پرویزخٹک جیسے سیاسی گرو (جن کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کہیں اور رابطوں کی افواہیں بھی جنم لے رہی ہوں ) کو صدر بنانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
ان کو ملنے والے ٹاسک کے مطابق پرویزخٹک صاحب نے صوبے میں پارٹی کو متحد و مضبوط کرنا ہے۔ پارٹی کے اندر خاندانی اثر و رسوخ اور موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہے۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس صوبے میں پارٹی کے اندر اگر کوئی واضح گروپ وجود رکھتا ہے تو وہ پرویزخٹک کے سیاسی حریف عاطف خان کا ہو سکتا ہے جو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے دوران صوبے میں وزارت اعلی کے امیدوار تھے اور ان کا وزیراعلی بننا صرف اس لئے ممکن نہیں ہوسکا تھا کہ پرویز خٹک نے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ اگر انہیں خود وزیراعلی نہیں بنانا تو عاطف خان کو بھی وزیراعلی نہیں بنایا جائے گا جس کے بعد عمران خان نے محمود خان جیسے شریف آدمی کو وزیراعلی بنایا۔
اس وجہ سے پارٹی کے اندر گروپ بندی کی وجہ بھی پرویزخٹک اور عاطف خان کے مابین جاری یہ رسہ کشی ہے۔ یعنی خود پرویزخٹک اس تقسیم کی وجہ ہیں اور ساتھ ہی وہ ملک بھر میں موروثی سیاست کے سب سے بڑے نشان کے طور پر بھی ابھرے ہیں۔ یعنی ان کے گھر کا ہر قابل ذکر مرد و خاتون اس وقت پارلیمان کے مختلف ایوانوں کا حصہ ہے۔ اس لئے سوال وہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان جیسے شخص سے جو کم ہی اپنے مخالفین کو معاف کرتا ہے، یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پارٹی کو متحد کرنے کے اس ٹاسک کے مکمل کرنے کے لئے عاطف خان وغیرہ کو بھی گلے لگا سکتے ہیں؟
سوال در سوال تحریک انصاف کے مستقبل پر بادلوں کی طرح سایہ کیے ہوئے ہیں اور یہ تو اب بچوں کو بھی معلوم ہے کہ جس خیبرپختونخوا کو اپنی کامیابی کے کھاتے میں ڈال کر عمران خان نے پورے ملک سے ووٹ حاصل کیے تھے۔ اب اسی خیبرپختونخوا کی حالیہ ناکامی پورے ملک میں ان کو مشکل میں بھی ڈال چکی ہے۔
مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ اب تو تحریک انصاف کے حامی لوگ میڈیا پر بیٹھ کر اسے اپنی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ کہتے ہیں۔ خیبرپختونخوا جہاں پر ایک روپے پچیس پیسے فی یونٹ بننے والی بجلی جس طرح یہاں کے لوگوں کو تیس روپے فی یونٹ مل رہی ہے۔ اس نے تحریک انصاف کو ناقابل بیان مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ بے روزگاری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی، چینی، پٹرول، آٹا مہنگا ہونے کی ایک طویل فہرست ہے جو عمران خان کے جوانوں میں جنون کو مقتول کرنے کا باعث بنی ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم بھی بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھری ہے۔
ایسے میں کیا یہ سمجھا جائے کہ عمران خان کی جماعت کی کشتی ڈوب چلی ہے؟ اس کا جواب یقیناً نا میں ہے لیکن اس سوال کا جواب ضرور ہاں میں ہے کہ عمران خان کو اپنے کارکن کو دوبارہ ساتھ کھڑا کرنے کے لئے ایک انتہائی ہائی وولٹیج کا جھٹکا دینا ہو گا۔ اپنے انتخابی وعدوں میں سے کسی ایک کو پورا کرنے کے لئے کوئی ایسا کام کرنا ہو گا جو اس کے کارکن کو اس قابل بنا سکے کہ وہ عام لوگوں سے نظریں ملا سکے ورنہ کوئی بھی عارضی کوشش یا لولی پاپ کسی کام کا نہیں ہو گا جب کہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کی جماعتوں کے مورال بھی بلندی کی انتہاؤں کو چھو رہے ہوں۔
ساتھ ہی جن لوگوں کو پارٹی کو متحد کرنے کا ٹاسک ملا ہے، ان کی فہرست پر بھی نظر ڈالنی ہوگی کہ ان میں کون ایسا ہے جو عمران خان کی کشتی ڈولنے کے احساس کے ساتھ ہی اس سے چھلانگ لگا کر ”کہیں اور“ نہیں چلا جائے گا۔
حکومت کے بارے میں ناقص کارکردگی اور کرونا فنڈ میں غبن جیسے داغوں کو دھوئے بغیر عمران خان صاحب شاید ہی اپنے کارکن اور عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرسکیں اس لئے اگر وہ ان چند سوالوں کے مناسب جواب ڈھونڈنے میں کامیاب ہو سکیں تو ہی وہ وطن واپسی کے پر تولنے والے نواز شریف اور پنجاب میں خیمے گاڑنے والے آصف زرداری کو واپس پیچھے دھکیل سکیں گے۔
یہ بھی پڑھیے:
افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر
کانچ کا وجود اور پتھر سے دشمنی۔۔۔ محمود جان بابر
پاکستان میں افغانوں کے چالیس سال ۔۔۔ محمود جان بابر
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ