نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قافلوں کی روانگی||ظہور دھریجہ

یہ حقیقت ہے کہ محترمہ کی شہادت نے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو غمزدہ کیا ، وہ پاکستانی سیاست کی آبرو اور پاکستان کے غریب عوام کی آس امید اور تمنا تھیں ، ان کا قتل کروڑوں جمہوریت پسند غریب انسانوں کی آرزئوں کا قتل ہے ۔

سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 14ویں برسی میں شرکت کیلئے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں قافلے گڑھی خدا بخش لاڑکانہ کیلئے ملتان سے روانہ ہوئے۔ رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود قافلے کی قیادت کر رہیتھے۔ یوں تو ملک بھر سے پیپلز پارتی کے کارکن اور رہنما ہر سال 27 دسمبر کو شہید بینظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے جاتے ہیں مگر وسیب سے خصوصی طور پر قافلے جاتے ہیں کہ سندھ اور سرائیکی وسیب کی تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی سانجھ صدیوں سے موجود ہونے کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا وسیب سے سیاسی تعلق تھا۔
 یہ حقیقت ہے کہ محترمہ کی شہادت نے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو غمزدہ کیا ، وہ پاکستانی سیاست کی آبرو اور پاکستان کے غریب عوام کی آس امید اور تمنا تھیں ، ان کا قتل کروڑوں جمہوریت پسند غریب انسانوں کی آرزئوں کا قتل ہے ۔
27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی شہادت سے کچھ دیر پہلے محترمہ بینظیر نے کہا کہ کہ پنڈی نے مجھے بہت دکھ دیئے ہیں اور کچھ خوشیاں بھی ، انہوں نے کہا کہ پی پی کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے ، میرے والد جابر قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہوئے اور تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے ۔ میرے دو بھائی قتل ہوئے۔ میری ماں کا لاٹھیوں سے سر پھاڑ دیا گیا۔ مجھے قدم قدم پر اذیتیں دی گئیں اور ٹارچر کیا گیا ۔ میں جیلوں کے اندر رہ کر بھی جمہوریت کیلئے لڑتی رہی۔ آمروں نے ہمیشہ جمہوریت کا راستہ روکا۔ میرے کراچی کے جلسے میں دھماکے کرائے گئے ، ہم نے اپنے سینکڑوں کارکنوں کے لاشے اٹھائے۔
 بہاولپور کے جلسہ عام میں محترمہ نے کہا تھا کہ مجھے اورمیرے بزرگوں کو بہاولپور سے پیار ہے ، یہ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی اور جلال الدین سرخ بخاری کی دھرتی ہے ، میرے دادا میر مرتضیٰ بھٹو کو انگریز دور میں یہاں پناہ ملی ،ہم بر سر اقتدار آ کر اس شہر میں زراعت کی ترقی ، بے روزگاری کے خاتمے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے ۔ افسوس کہ محترمہ کے فرمان کے بر عکس پانچ سال حکومت کرنے کے باوجود نہ تو بہاولپور میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا گیا اور نہ کوئی صنعت قائم ہوئی نہ زراعت کو ترقی ملی اور چولستان میں زمینوں کی بندر بانٹ بند ہونے کی بجائے بڑھ گئی ، آج سرائیکی وسیب میں گندم کے کھلے عام گودام بھرے ہیں لیکن لوگ بھوک سے خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
 کپاس ان کی ہے مگر کارخانے کہیں اور ہیں اور گارنمنٹس کا ایکسپوٹر کوئی اور ہے ۔ سرائیکی وسیب سمیت تمام پسماندہ علاقوں کی پسماندگی ختم کرنے کیلئے ترقی کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی ۔ جس طرح سندھ اور سرائیکی وسیب کی تاریخ بہت قدیم ہے اسی طرح تہذیبی ، ثقافتی جغرافیائی سانجھ بھی بہت پرانی ہے ۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے ان کی زبان ، ثقافت ایک رہی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے یہاں بسنے والی قومیں اور ذاتیں نا صرف ایک ہیں بلکہ ان کے درمیان زمانہ قدیم سے رشتہ داریاں بھی ہیں ۔ دونوں خطوں کے لوگ ایک ہی طرح کی تہذیبی ، ثقافتی اور جغرافیائی مسائل کا شکار ہیں ، دونوں خطے زمانہ قدیم سے حملہ آوری کی زد میں رہے اب بھی دونوں خطوں کے لوگ غیر محفوظ حملہ آوری کی زد میں ہیں ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں کے درمیان دکھ کی سانجھ قدرتی اور فطرتی طور پر موجود ہے ۔
اسی سانجھ نے دونوں کو اپنائیت کے دھاگے میں میں پرو رکھا ہے ۔ اسی بات کا سب سے زیادہ احساس دیدہ ور سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو تھا ۔ انہوں نے جس طرح اپنی ماں دھرتی سندھ سے محبت کی اُسی طرح سرائیکی وسیب سے بھی محبت کی۔ لیکن آج مہاجر صوبے کے خوف سے سندھ کی قیادت نے وسیب سے آنکھیں پھیر لیں ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ بھٹو خاندان کو وسیب اور وسیب کو بھٹو خاندان سے محبت ہے، محترمہ کی شہادت پر سب سے زیادہ شاعری سرائیکی میں کی گئی۔ محترمہ نے ایک نظم طویل نظم لکھی۔اس طویل نظم میں سے چار لائنوں کا مفہوم یہ ہے کہ اس جیون کا کوئی فائدہ نہیں جو ملتان ، کیچ مکران ، ملک مہران اور شہر مردان سے دور ہو ۔
پیپلز پارٹی کے جلسوں میں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر ، بے نظیر ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ زنجیر ٹوٹ گئی ۔ گزشتہ قومی و صوبائی الیکشن کے بعد بلدیاتی الیکشن نے قوم کو اور قومی جماعتوں کو ایک ایک صوبے تک محدود کر کے قومی اکائی کو تقسیم کر دیا، یہ بہت بڑا نقصان ہے ۔ یہ وہ صورتحال ہے جو ون یونٹ کے وقت صوبہ مغربی پاکستان اور صوبہ مشرقی پاکستان کے درمیان وقوع پذیر ہوئی۔ 1970ء کے الیکشن میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی کوئی جماعت اور مغربی پاکستان میں مشرقی پاکستان کی کوئی جماعت کامیابی حاصل نہ کر سکی۔
آخر یہ بات مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پی پی کی موجودہ قیادت نے قوم اور وسیب کے لوگوں کو صوبہ شناخت اور بنک بنانے کے خوش کن خواب دکھائے اور دن رات سرائیکی صوبہ سرائیکی صوبہ کا ماحول اس طرح بنایا کہ لوگوںکی خوش فہمی آسمان پر پہنچ گئی ، مگر اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر سرائیکی قوم کی بات نہ سنی گئی۔ سرائیکی صوبہ تو کیا سرائیکی بنک بھی نہ بنایا اور سرائیکی قوم کو شناخت دینے کی بجائے صوبے کا نام ’’ جنوبی پنجاب‘‘ تجویز کیا اور بہت سے علاقے صوبہ بننے سے پہلے کاٹ دئیے تو اس پر سرائیکی وسیب کے کروڑوں انسانوں کے خواب چکنا چور ہوئے اور حوصلہ اور پرسہ دینے کی بجائے سرائیکی قوم کو مایوسی کے اندھے کنویں میں دھکا دیدیا۔ آج اگر بی بی زندہ ہوتی تو پی پی کی موجودہ قیادت سے پوچھتیں کہ کیا ایسے سیاست اور قوم کی رہنمائی کی جاتی ہے ؟

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author