دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عوام کو تجرباتی چوہے بنانا قائد کاخواب نہیں تھا|| وجاہت مسعود

کیا قائد کی تجربہ گاہ میں عوام کا معیار زندگی نچلی ترین ترجیح ہونا تھا؟ پاکستان میں ایک سے زائد بار عوام کو رات کے اندھیرے میں ان کے حق حکمرانی سے محروم کیا گیا۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بابائے قوم کے خواب کو پاکستان کی قومی ریاست میں تبدیل ہوئے پون صدی گزر گئی۔ اس دوران اہل پاکستان نے ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کو کمزور اور ریاست کو مضبوط ہوتے دیکھا ہے۔ عوام کے ساتھ اس سازش، جرم اور ناانصافی کی جڑیں ذاتی مفاد، استحصال اور کوتاہ نظری میں پیوست ہیں۔ قائد کا خواب یہ نہیں تھا۔ 25 نومبر1945 کو اسلامیہ کالج پشاور میں قائد نے پاکستان کو دنیا کے لئے ایک تجربہ گاہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ بانی پاکستان اس تجربہ گاہ میں کون سے اصول، ضابطے اور ، اقدار قائم کرنا چاہتے تھے؟ درویش کا علم محدود اور فہم مفقود ہے تاہم عرض ہے کہ قائد نے 13 دسمبر 1946 کو کنگز وے ہال لندن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’جمہوریت مسلمانوں کے خون میں ہے۔ مسلمان مکمل انسانی مساوات، رواداری اور آزادی میں یقین رکھتے ہیں۔‘11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی اور فروری 1948ءمیں امریکی عوام کے نام ریڈیو خطاب کے حوالے چنداں ضروری نہیں۔ قائد کے یہ فرمودات ہمارے لئے حرز جاں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایک حالیہ انکشاف کا مختصر ذکر اور پھر کچھ سوالات…. شہزاد نیئر یاد آ گئے، میں سیر کی خاطر تو فلک پر نہیں آیا….
گاہے گاہے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات دیکھتا رہتا ہوں۔ ایک دلچسپ ٹیلی گرام دریافت ہوا۔ 13 فروری 1953 کو کراچی میں امریکی قونصل جنرل آر اے گبسن کی طرف سے پاکستان کے کمانڈر انچیف ایوب خان سے ملاقات کی رپورٹ واشنگٹن بھیجی گئی۔ ان دنوں پنجاب میں احمدی مخالف فسادات شروع ہو چکے تھے۔ دستاویز کے مطابق ایوب خان نے امریکی نمائندے کو بتایا کہ ’اگر سیاستدانوں یا عوام کی طرف سے حکومت گرانے کی کوشش کی گئی تو فوج فوری طور پر مارشل لا لگا کر ملک میں فوجی حکومت قائم کر دے گی۔ فوج عوام یا سیاستدانوں کو ملک تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ کمانڈر انچیف نے ممتاز دولتانہ اور عبدالقیوم خان کو پاکستان کی قیادت کے لئے نااہل بھی قرار دیا‘۔ گویا اکتوبر 1958 کی سوچ 1953 میں بھی موجود تھی۔ عوام اور سیاست دان ملک دشمن تھے اور فوج سیاسی بندوبست کی نگران تھی۔ اعظم خان کا محدود مارشل لا دراصل ایک بڑے پلان کا جزوی حصہ تھا۔ اب14 جون 1948 کو سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسران سے قائد کا خطاب یاد کیجئے۔ آپ نے فرمایا، ’مت بھولئے کہ آپ عوام کے ملازم ہیں۔ قومی پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں۔ یہ فیصلے سویلین قیادت کو کرنا ہیں اور آپ کا کام ان احکامات کی تعمیل ہے۔‘ قائد اعظم اور ایوب خان کی سوچ میں فرق آپ خود دیکھ لیجئے۔
اور اب کچھ سوالات…. کیا قائد نے پاکستان میں شہریوں کے مابین تفریق اور درجہ بندی کا تجربہ کرنا چاہا تھا؟ کیا قائد نے پاکستان میں عوام کی حاکمیت اعلیٰ سے انکار کا تصور دیا تھا؟ کیا قائد پاکستان کی تشکیلی اکائیوں (صوبوں) میں فیصلہ سازی اور وسائل پر اجارے اور محرومی کے تعلق کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا دستوری سیاست کے علمبردار جناح ایک سرزمین بے آئین کا تصور رکھتے تھے۔ کیا قائد اعظم نے پاکستان تشریف لانے سے قبل دہلی میں مسلم افسروں سے ملاقات میں انہیں ملک کی قسمت سونپی تھی؟ کیا قائد منتخب نمائندوں پر خود ساختہ مذہبی پیشواو¿ں کی بالادستی کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کیا قائد مذہبی تنازعات کی آڑ میں عوام کو بے دست و پا کرنے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ جس قائد نے کہا تھا کہ "“No nation can ever be worthy of its existence that cannot take its women along with the men. … کیا وہ پاکستان کی عورتوں کے لئے امتیازی قوانین کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا قائد مشرقی بنگال کی اکثریت کو ون یونٹ کے تجربے کی بھینٹ چڑھانا چاہتے تھے۔ کیا قائد ہمسایہ اقوام کے ساتھ ازلی اور ابدی دشمنی کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا قائد ذاتی مفاد اور گروہی بالادستی کی خاطر پاکستان کو عالمی طاقتوں کا باجگزار بنانے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا قائد پاکستان کے منتخب نمائندوں کو خارجہ پالیسی اور معیشت جیسے بنیادی معاملات سے بے دخل کرنا چاہتے تھے؟ کیا قائد اعظم پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو پس پردہ قوتوں کا آلہ کار بنانے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ کیا ہارنی مین، دھرتلک، جوزف پوتھن اور شرما جیسے صحافیوں کے حق اظہار کی بے باک حمایت کرنے والے قائد اعظم پاکستان میں نیشنل پریس ٹرسٹ اور سنسر شپ جیسے اقدامات کا تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ جس عظیم قائد نے 13 اپریل 1941 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے مدراس اجلاس میں صدارتی خطبے میں کہا تھا،
I have always believed … no Government will succeed if their policy and program is to be unjust, unfair and tyrannical over the minorities.
کیا ایسا رہنما مذہبی اقلیتوں کے لئے پاکستان میں امتیازی سلوک، عدم تحفظ اور اجتماعی زندگی سے استخراج کا تجربہ چاہتا تھا۔ کیا متحدہ ہندوستان میں آدی واسیوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والا اور پاکستان میں جوگندر ناتھ منڈل کو پہلا وزیر قانون بنانے والا قائد فرقے، نسل اور زبان کی سیاست کا تجربہ کرنا چاہتا تھا؟ کیا قائد اعظم پاکستان میں انتخابی جعل سازی اور مفلوج جمہوریت کا تجربہ کرنا چاہتے تھے؟ کیا قائد اعظم پاکستان کو وراثتی رسوخ، سرمایہ دار جتھوں اور جاگیرداروں کا رجواڑہ بنانا چاہتے تھے؟ صرف چند سوال مزید…. کیا قائد پاکستان کی آدھی آبادی کو تعلیم سے محروم رکھنے کا تجربہ کرنا چاہتے تھے۔ کیا قائد کی تجربہ گاہ میں عوام کا معیار زندگی نچلی ترین ترجیح ہونا تھا؟ پاکستان میں ایک سے زائد بار عوام کو رات کے اندھیرے میں ان کے حق حکمرانی سے محروم کیا گیا۔ کیا قائد اعظم ایسے مواقع پر مصلحت آمیز خاموشی کا تجربہ کرتے یا احتجاج کی چنگھاڑ بلند کرتے؟ قائد اعظم ایک جمہوری، پرامن، روادار، ترقی یافتہ اور متمدن پاکستان کا تجربہ کرنا چاہتے تھے، قائد نے پاکستان میں بنیادی، کنٹرولڈ، ہائبرڈ، مذہبی اور ٹیکنوکریٹ جمہوریت کے نام پرعوام کو تجرباتی چوہے بنانے کا خواب نہیں دیکھا تھا۔

بشکریہ : ہم سب

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author