حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس بنیادی سوال کو یہاں نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت کو اپنے لوگوں کے مسائل و حالات کی بھی اتنی ہی فکر ہے جتنی فکرمندی کامظاہرہ پچھلے چند ماہ سے افغانستان کے حوالے سے کیا جارہا ہے ؟ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ دنیا افغان طالبان کے نظام حکومت بارے تحفظات ظاہر کررہی ہے ایسے میں سعودی عرب کے تعاون سے پاکستان میں منعقد
ہونے والے اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں میزبان ملک کی جانب سے افغان عوام کی مدد کے لیے 6نکاتی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک فور طور پر افغان عوام کے لئے تعلیم اور تکنیکی شعبوں میں سرمایہ کاری کریں، یو این او اور او آئی سی کا گروپ بنا کر افغانستان کو جائز بینکنگ سہولیات تک رسائی میں مدد دی جائے، خوراک اور فوڈ سکیورٹی کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں، انسداد دہشت گردی ومنشیات کے خاتمہ کے لیے افغان اداروں کی استعداد کار بڑھانے میں تعاون کیا جائے، افغانستان میں انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے تعاون و رہنمائی کی جائے اور افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت سے تعاون کیا جائے،
یہ 6نکاتی حکمت عملی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیش کی، وزرائے خار جہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمر ان خان کا کہنا تھا کہ اس وقت کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں، افغانستان میں سالہاسال کرپٹ حکومتیں اقتدار میں رہیں، افغانستان کے حالات سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا اور نقصان اٹھایا موجودہ حالات میں اگر دنیا نے اپنے فرائض کی ادائیگی سے غفلت کا مظاہرہ کیا تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحر ان ہو گا، گزرے برسوں میں افغانستان کا سالانہ بجٹ کا 75فیصد غیر ملکی امداد پر رہا، بے سروسامانی کے عالم میں افغان عوام مسلم امہ اور عالمی برادری کی طرف دیکھ رہے ہیں، افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے افغانستان کے حالات سے پاکستان کے متاثر ہونے قربانیوں اور معاشی نقصانات کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا، بات پھر وہی ہے ہم یہ سب کہہ تو رہے ہیں لیکن کیا دنیا ہماری بات سن رہی ہے یا سننے کو تیار ہے ؟ کیا جو تحفظات افغان طالبان کے حوالے سے ہیں وہ ہم دور کرپائیں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا افغان طالبان اور عوام کو الگ کرکے دیکھے اور مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ملک کی حکومت اور عوام کو الگ کرکے دیکھا جائے ۔ معاف کیجے گا آنکھیں بند کرلینے سے حقائق تبدیل نہیں ہوتے یہ بجا ہے کہ
افغانستان کی صورتحال پر غور کے لئے منعقد ہونے والے اسلامی وزرائے خار جہ کے اجلاس میں مسلم امہ کو درپیش چیلنجوں اور افغان عوام کی مشکلات کا بھی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا، وزیر خار جہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ او آئی سی وزرائے خار جہ کانفرنس کے انعقاد کا مقصد اسلامی دنیا اور عالمی برادری کو افغانستان کی سنگین ہوتی صورتحال کی طرف متوجہ کرنا تھا، پاکستان اپنا فرض نبھا رہا ہے باقی ماندہ دنیا کو بھی انسانی ہمدردی کے جذبے سے صورتحال کو دیکھنا اور سمجھنا ہو گا۔
ہم دنیا کو بتارہے ہیں کہ اس وقت جب افغانستان کی نصف آبادی کو روزمرہ ضرورت کی اشیاء میسر نہیں اور نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے کیا دنیا اس سے بے خبر ہے ؟ اور کیا دنیا یہ سوال نہیں کرے گی کہ اگر وہ کوئی مدد کرتی بھی ہے تو کس کی اور کیسے کرے اس سے انکار نہیں کہ او آئی سی وزرائے خار جہ کانفرنس کا انعقاد خصوصی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی 6نکاتی حکمت عملی پر مسلم دنیا یقیناً متفقہ لائحہ عمل اپنالے گی کیا مسلم دنیا کا فرض نہیں کے کہ وہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرانے کیلئے کچھ طالبان کو بھی سمجھائے کہ وہ بھی آج کی جدید دنیا کے تقاضوں کو سمجھیں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں جن معاملات کی نشاندہی کی ان پر دو آراء ہرگز نہیں، 9/11کے بعد افغانستان میں اقوام متحدہ کی منظوری سے اٹھائے جانے و الے اقدامات کے بعد بننے والی حکومتوں کو اگست 2021ء سے قبل کے 20برسوں کے دوران تعمیر نو کے لئے جتنی دنیا اور بالخصوص امریکہ و اتحادیوں نے امداد فراہم کی وہ کرپشن کی نظر نہ ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی، امریکہ طالبان دوحا معاہدہ کے بعد غیر ملکی انخلاء کا عمل مقررہ وقت پر تو ضرور مکمل ہوا مگر انخلاء کے عمل کی تکمیل کے بعد دوحا معاہدہ کے مطابق جو تعاون کیا جانا تھا اس پر عمل کی بجائے امریکہ نے بیرون ملک افغان اثاثوں پر پابندی عائد کر دی، امریکی ایما پر ہی ورلڈ بنک نے افغان سپورٹ فنڈ کو منجمد کر دیا، اگلے مرحلہ میں امریکہ نے مزید پابندیاں عائد کریں جن کے بعد امریکہ کے مغربی اتحادی ممالک کی وہ تنظیمیں جو دنیا بھر میں انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرتی ہیں انہوں نے افغانستان میں ابتر ہوتی صورتحال سے محض اس لئے چشم پوشی برتی کہ ان کے ممالک کی حکومتیں امریکہ کی اتحادی ہیں، صاف الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان تنظیموں کی انسانی حقوق اور فلاح وبہبود کے لئے خدمات بھی امریکی خوشنودی اور احکامات سے مشروط ہیں، دوسری طرف امریکی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ افغان طالبان کی عبوری حکومت نے وہ وعدے پورے نہیں کئے یعنی عوامی اعتماد پر مبنی نظام جس میں تمام طبقات شامل ہوں اور انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے ، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران افغان عوام کے مسائل کے حل کے لئے متعدد کانفرنسیں منعقد ہوئیں مگر بدقسمتی سے بنیادی ضرورتوں اور صورتحال پر غور کی بجائے یہ کانفرنسیں خطے میں امن وامان اور عبوری حکومت کو ایجنڈا فراہم کرنے تک ہی محدود رہیں، اس عرصہ میں عالمی سیاست کے بعض تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ محض اپنی انا کی تسکین کے لئے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے، جبکہ تجزیہ کاروں کے ایک حصے نے افغان عبوری حکومت کے ان اقدام کو آڑے ہاتھوں لیا جو بچیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمتوں اور آبادی کے مختلف طبقات میں اعتماد سازی کیلئے ضروری تھے طالبان نے نہیں کئے یہ بجا ہے کہ موجودہ حالات میں اسلامی کانفرنس کے وزرائے خار جہ کا اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس خصوصی اہمیت کا حامل ہے مسائل ومشکلات کا شکار افغان عوام مسلم دنیا کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، یہ کہنا بھی خلاف حقیقت ہرگز نہ ہو گا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں گزشتہ نصف صدی کے دوران غربت وپسماندگی سے برباد حال طبقات کے نوجوانوں نے منشیات فروشی اور دہشت گردی کے نیٹ ورکوں میں شرکت کی، اسلامی وزرائے خار جہ کے اجلاس میں شریک مسلم دنیا کے رہنمائوں سے زیادہ کس کو اس صورتحال کا اندازہ اور تجربہ ہو سکتا ہے، ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ اس کڑے وقت میں مسلم دنیا آگے بڑھ کر اپنے افغان بھائیوں کی دست گری کرے اور تعمیر نو کے لئے مدد فراہم کرے تاکہ افغانستان میں ایک بار پھر وہ حالات نہ بننے پائیں جو جینوا معاہدہ کے بعد نظر انداز کئے جانے پر پیدا ہوئے تھے۔ حرف آخر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بڑوں کو امریکہ سے دوٹوک انداز میں بات کرنی چاہئے کہ اس کی مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ